جرمن حکومتی بحران: میرکل اور زیہوفر کے مابین مصالحت ہو گئی
3 جولائی 2018برلن میں چانسلر انگیلا میرکل کی قیادت میں موجودہ وفاقی حکومت تین جماعتوں پر مشتمل ایک وسیع تر مخلوط حکومت ہے، جس میں میرکل کی کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو، اس پارٹی کی صوبے باویریا سے ہم خیال سیاسی جماعت کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی شامل ہیں۔
چانسلر میرکل سی ڈی یو کی سربراہ بھی ہیں اور موجودہ جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر، جن کا تعلق جنوبی صوبے باویریا سے ہے، کرسچین سوشل یونین کے سربراہ بھی ہیں۔ ان دونوں سیاستدانوں کے درمیان، جن کی جماعتیں عشروں سے ایک دوسرے کی روایتی حلیف چلی آ رہی ہیں، موجودہ تنازعہ کئی ہفتے پہلے اس وقت شروع ہوا تھا جب وزیر داخلہ زیہوفر نے یہ کہا تھا کہ وہ جرمنی میں داخلے کے خواہش مند تارکین کے ایک خاص طبقے کو جرمنی کی قومی سرحدوں ہی سے واپس بھیج دینا چاہتے ہیں۔
یہ بات چانسلر میرکل کے لیے اپنی مجوزہ شکل میں قابل قبول نہیں تھی، جنہوں نے کہا تھا کہ مہاجرین کا بحران ایک یورپی مسئلہ ہے، جس کا یورپی سطح پر ہی ایک جامع حل نکالا جانا چاہیے۔ زیہوفر چاہتے تھے کہ ایسے تارکین وطن جو پہلے ہی یورپی یونین کے رکن دوسرے رکن ملک میں خود کو پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کے طور پر رجسٹر کروا چکے ہوں، جرمن وزارت داخلہ انہیں جرمنی اور آسٹریا کی قومی سرحد سے ہی واپس بھیج دے گی۔
میرکل نے ابھی حال ہی میں کئی یورپی ملکوں کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ کامیابی بھی حاصل کر لی تھی کہ متعدد ممالک انفرادی سطح پر جرمنی کے ساتھ اتفاق رائے کے بعد اس امر پر تیار ہو گئے تھے کہ وہ جرمنی سے واپس بھیجے جانے والے تارکین وطن کو اپنے ہاں قبول کر لیں گے۔
اسی دوران زیہوفر اور میرکل کی گزشتہ ہفتے کے روز طویل بات چیت بھی ہوئی تھی اور اتوار کے روز برلن میں میرکل نے اپنی جماعت سی ڈی یو اور زیہوفر نے میونخ میں اپنی پارٹی سی ایس یو کی مرکزی قیادت کے ساتھ کئی کئی گھنٹوں تک مشاورت بھی کی تھی۔
یہ حکومتی بحران اس وقت شدید ہو گیا تھا جب اتوار یکم جولائی کی رات باویریا کے دارالحکومت سے یہ خبریں ملنا شروع ہوئی تھیں کہ ہورسٹ زیہوفر اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہیں اور وہ وفاقی وزیر داخلہ اور کرسچین سوشل یونین کے سربراہ کے طور پر اپنے دونوں عہدوں سے ممکنہ طور پر مستعفی ہو سکتے ہیں۔
اگر ایسا ہو جاتا تو ممکنہ طور پر میرکل حکومت کے لیے ایک بڑی بحرانی صورت حال پیدا ہو سکتی تھی۔ لیکن پھر کل پیر کے روز برلن میں میرکل اور زیہوفر کے مابین دوبارہ طویل بات چیت ہوئی، جس کے بعد یہ کہا گیا کہ ان دونوں رہنماؤں نے مہاجرین اور تارکین وطن سے متعلق اپنے اپنے اختلافی موقف سے کچھ پیچھے ہٹتے ہوئے ایک مصالحتی حل تلاش کر لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہورسٹ زیہوفر مستعفی ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔
میرکل اور زیہوفر کے مابین اب جو اتفاق رائے ہوا ہے، اس کے مطابق ایسے تارکین وطن، جن کی طرف سے دائر کردہ پناہ کی درخواستوں پر فیصلے یورپی یونین کے رکن دیگر ممالک کی ذمےد اری ہیں، انہیں جرمنی آنے سے روک دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ جرمنی کی آسٹریا کے ساتھ سرحد پر ایسے ’عبوری مراکز‘ بھی قائم کیے جائیں گے، جہاں سے پناہ کے متلاشی تارکین وطن کو واپس بھیجا جا سکے گا۔
چانسلر میرکل اور وزیر داخلہ زیہوفر کے مابین مہاجرین کے مسئلے کی وجہ سے پیدا ہونے والے حکومتی بحران سے متعلق جو سیاسی تصفیہ ہوا ہے، اسے زیہوفر سے زیادہ میرکل کی کامیابی اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ میرکل نے حکومتی استحکام کو خطرے سے نکالا اور جو بھی تصفیہ ہوا، وہ متضاد موقف کے باوجود ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر ہی ہوا۔
اس حوالے سے لیکن یہ بات بھی بہت اہم ہو گی کہ آیا دونوں قدامت پسند سیاسی جماعتوں (سی ڈی یو اور سی ایس یو) کے مابین اس اتفاق رائے کو، جس پر حکومتی سطح پر عمل کیا جائے گا، حکومت میں شامل تیسری اور پارلیمان میں دوسری سب سے بڑی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی بھی قبول کر لے گی یا نہیں۔
چانسلر میرکل نے اس تصفیے کو ’بہت سے مشکل دنوں اور بہت صبر آزما بات چیت کے بعد نکالا جانے والا ایک اچھا مصالحتی حل‘ قرار دیا ہے۔
فابیان فان ڈئر مارک / م م / ع ا