’جرمن دستور میں اسلامی شرعی قوانین کی کوئی جگہ نہیں‘ گاؤلانڈ
13 اپریل 2018جرمن دارالحکومت برلن میں پریس کانفرنس کے دوران ’اے ایف ڈی‘ یعنی ’متبادل برائے جرمنی‘ کے اہم رہنما ڈاکٹر الیگزینڈر گاؤلانڈ نے روس، امریکا اور چین سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سمیت تقریباﹰ پچاس غیرملکی نامہ نگاروں کی جانب سے داخلی اور خارجی امور پر پوچھے جانے والے تند وتیز سوالات کے جوابات دیے۔ اسلامی ثقافتی و سیاسی اقدار اور جرمن معاشرے کے درمیان ہم آہنگی کے بارے میں گاؤلانڈ نےایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگرجرمنی میں مقیم مسلمان اپنے عقیدے کی صرف ذاتی نوعیت پر پیروی کریں تو کوئی مسئلہ نہیں تاہم جرمنی کے دستور میں اسلامی شریعت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
’اسلام سے متعلق ذیہوفر کا بیان حکمت عملی ہے‘
اسلام جرمنی کا حصہ ہے، ہم تاریخ کا رخ نہیں موڑ سکتے، شوئبلے
جرمنی میں قریب چار اعشاریہ پانچ ملین مسلمان آباد ہیں۔ سابق جرمن صدر کرسٹیان وولف نے 2010ء میں پہلی مرتبہ اسلام کو جرمنی کا حصہ قرار دیا تھا۔ تاہم ماضی قریب میں جرمنی میں بننے والی نئی حکومت میں وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالنے والے قدامت پسند سیاستدان ہورسٹ زیہوفر نے کہا کہ ’اسلام جرمن ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔‘ جبکہ چانسلر میرکل نے جرمن پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ کے بیان کے برعکس کہا کہ ’اسلام جرمنی کا حصہ ہے۔‘
جرمنی میں دائیں بازو کی جماعت کے رہنما الیگزینڈر گاؤلانڈ نے ڈی ڈبلیو اردو کے نمائندے عرفان آفتاب کے سوال کے جواب میں اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا، ’’جرمنی کا ارتقاء مسیحیت سے ہوا ہے اور یہاں صرف مسیحی اقدار کی پیروی کی جائے گی۔‘‘ تاہم گاؤلانڈ سمجھتے ہیں یہ ثقافتی تضادات کا مسئلہ نہیں بلکہ مذہب اسلام میں حکومت کے ایک مخصوص طرز عمل کا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں کہ یورپی تاریخ میں اسپین پر مسلمانوں نے حکومت کی ہے لیکن دیگر مذاہب کی طرح اسلامی تاریخ میں مذہبی ارتقاء کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ لہٰذا اسلامی قانونی نظام ’شریعت‘ مغرب ممالک کے آزاد جمہوری اقدار کی نفی کرتا ہے۔ آخر میں انہوں نے اس بات پر ایک مرتبہ پھر زور دیا کہ ’جرمن دستور میں اسلامی شرعی قوانین کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع تھا جب اسلام اور مہاجرین مخالف سیاسی جماعت کے رہنما ڈاکٹر گاؤلانڈ نے غیر ملکی صحافیوں کی تنظیم ’وی اے پی‘ کی دعوت پر غیر ملکی صحافیوں سے خصوصی گفتگو کی۔ جرمنی میں نئی مخلوط حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی مہاجرین کی پالیسی پر کیے گئے ایک سوال کے جواب میں اسلام اور مہاجرین مخالف جماعت کے رہنما کا کہنا تھا وہ فی الوقت میرکل کی سیاسی پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی باویریا میں ہم خیال جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے بیانات سن رہے ہیں، تاہم اس منصوبہ بندی پر عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔
بعد ازاں جرمنی میں مقیم تارکین وطن کے اہل خانہ کی آمد کے سلسلے میں ان کا کہنا تھا جرمنی میں جن تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کی گئی ہیں صرف ان کے اہلِ خانہ کو جرمنی آمد کی اجازت دی جانی چاہیے۔ گاؤلانڈ کے مطابق پناہ گزینوں کے اہلِ خانہ کی آمد کا براہ راست تعلق سماجی انضمام سے ہے لہٰذا ایسے پناہ گزینوں کے اہل خانہ کی آمد پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے جن کو مستقبل میں اپنے وطن واپس لوٹ جانا ہے۔
جرمنی میں مہاجرین کا اپنے اہل خانہ کو بلانا اب مزید مشکل
’میں میرکل نہیں کہ معافی نہ مانگوں‘
اے ایف ڈی یعنی متبادل برائے جرمنی نے میرکل کی مہاجرین سے متعلق پالیسی کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عوامی مقبولیت حاصل کی۔ ایک صحافی نے سوال کیا کہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے ’اے ایف ڈی‘ کے پاس کوئی متبادل حکمت عملی ہے؟ اپنے جواب میں گاؤلانڈ نے کہا کہ چانسلر میرکل کا فیصلہ درست نہیں تھا اگر وہ سرحدیں نہ کھولتیں تو شاید بہت سے مہاجرین یورپی سرحدوں سے اپنے وطن واپس لوٹ جاتے اور جرمنی صرف ان مہاجرین کو سیاسی پناہ فراہم کرتا جواس کے حقیقی مستحق ہیں۔
’اسلام اور مہاجرین مخالف نعرے اے ایف ڈی نے گزشتہ انتخابات کے دوران انتہائی شدت سے بلند کیے تھے۔ اے ایف ڈی نہ صرف اب جرمنی کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے بلکہ پارلیمان میں وہ حزب اختلاف کی نمائندگی بھی کر رہی ہے۔