سیاسی رہنماؤں کی دائیں بازو کے انتہا پسندوں پر سخت نکتہ چینی
31 اگست 2020جرمنی میں متعدد سیاسی رہنماؤں نے برلن میں واقع وفاقی پارلیمان رائش اسٹاگ میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد کے زبردستی داخل ہونے کے واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے شدید ناراضگی ظاہر کی ہے۔ دائیں بازو کے انتہا پسند کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے عائد پابندیوں کے خلاف برلن میں احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے، جس کی پولیس نے اجازت نہیں دی تو ان تنظیموں سے وابستہ سینکڑوں افراد نے سنیچر کو پارلیمان میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی۔ پولیس نے اس سلسلے میں متعدد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے اس واقعے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا، ''جمہوریت کے قلب پر یہ نا قابل برداشت حملہ ہے۔'' انہوں نے اس میں حصہ لینے والے تمام افراد کو دائیں بازو کے انتہا پسند قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ سکیورٹی فورسز نے بڑی مستعدی سے کام کیا۔ مظاہرین میں سے کچھ لوگ سکیورٹی کا حصار توڑتے ہوئے پارلیمان کے زینوں تک پہنچ گئے، جنہیں بعد میں فورسز نے روکا۔ ان میں سے بیشتر افراد نے دائیں بازو سے متعلق نشان چسپاں کر رکھا تھا۔
سنیچر کے روز برلن میں کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے سلسلے میں عائد بندشوں کے خلاف مظاہر کرنے کے لیے تقریبا ً38 ہزار افراد جمع ہوئے تھے۔ لیکن چونکہ احتجاجی مظاہرے کے دوران سوشل ڈسٹینسنگ کے اصولوں پر پابندی نہیں کی جا رہی تھی اس لیے پولیس نے اسے دو گھنٹے کے اندر ہی ختم کرنے کا اعلان کیا۔
جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے اس پر اپنے رد عمل میں کہا کہ وفاقی پارلیمان کی عمارت آزاد جمہوریت کی علامت ہے۔ ''حقیقت تو یہ ہے کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند اپنے مقاصد کے لیے اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں اور بد نظمی کا بیج بو رہے ہیں۔''
پارلیمان کے پاس نازیوں کی علامت کی کوئی جگہ نہیں ہے
وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ''کتنے شرم کی بات ہے کہ 'جرمن رائش' کا پرچم بھی پارلیمان کے سامنے ہے۔'' خود کو ’جرمن رائش‘ کے شہری قرار دینے والے افراد وفاقی جمہوریہ جرمنی کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جرمن ریاست کی 1937ء والی سرحدیں ابھی تک قائم ہیں اور موجودہ جرمن حکومت ایک ایسے ملک کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے، جو ابھی تک غیر ملکی قوتوں کے زیر قبضہ ہے۔ زیادہ تر ’رائش سٹیزن‘ انتہائی دائیں بازو کی سوچ اور سامیت دشمن نظریات رکھتے ہیں۔
وزیر خزانہ اولاف شولز کا کہنا تھا، '' نازی علامتوں اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے پرچم کی جرمن پارلیمان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔'' کئی دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اس حرکت کی مذمت کی ہے۔
پارلیمان میں داخل ہونے کے واقعے کی بعض ویڈیو کلپز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہجوم نے پارلیمان میں داخل ہونے کے لیے عمارت کا عقبی دروازہ چنا جہاں صرف تین پولیس اہلکار تعینات تھے۔ ان اہلکاروں نے ہجوم کی کوششوں کو ناکام بنا دیا تاہم پولیس کے مطابق ہر وقت ہر جگہ پولیس موجود نہیں رہ سکتی تھی اس لیے موقع پر کچھ لوگ اس کے اندر جانے میں کامیاب ہو گئے۔
برلن کے ریاستی وزیر داخلہ اندریاس گائزل کے مطابق اس سلسلے میں پولیس نے تقریبا ًتین سو افراد کو گرفتار کیا ہے۔ اس میں سے کچھ لوگوں کو روسی سفارتخانے کے باہر سے بھی حراست میں لیا گیا جہاں احتجاج کے لیے تقریبا ًتین ہزار افراد جمع ہوئے تھے۔ دائیں بازو کے انتہا پسند مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور پانی کی بوتلیں بھی پھینکی۔
سیاسی جماعت ایس پی ڈی کے ایک رہنما لارس کلنگ بائل کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات پر حیرت ہے کہ جرمن خفیہ ایجنسیوں کو پہلے ہی سے اس بات کا پتہ کیسے نہیں چل سکا کہ مظاہرین میں دائیں بازو کے انتہا پسند بھی شامل ہو کر اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر اس بارے میں پہلے ہی سے خبردار کیوں نہیں کیا گیا تھا یا پھر ایجنسیوں کو پہلے سے کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔
ایک ماہر کاتھارینا نوکن کا کہنا ہے کورونا وائرس کی وبا کے دور میں جس بڑی تعداد میں اور مختلف گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مظاہرہ کرنے کے لیے باہر نکلے وہ کافی تشویش ناک ہے، ’’اس میں سازشی نظریات کے حامیوں اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے متعدد گروپ شامل تھے اور سب کی مشترکہ دشمن حکومت ہے۔‘‘
ص ز/ ج ا (روئٹرز، ڈی پی اے)