'ماسک اتار دو‘جرمنی میں کورونا پابندیوں کے خلاف مظاہرے
10 مئی 2020جرمنی کے متعدد بڑے شہروں میں کئی ہزار افراد نے کورونا وائرس کی وجہ سے حکومت کی جانب سے عائد کردہ حفاظتی اقدامات کو انتہائی سخت قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مظاہرین سیاستدانوں اور شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے افراد پر معاشرے میں افراتفری پھیلانے کا الزام عائد کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ طویل عرصے سے جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے شہریوں کے حقوق بھی پامال ہوئے ہیں۔
کورونا ایک سازش؟
عینی شاہدین نے بتایا کے ان مظاہروں میں ایسے افراد بھی شریک تھے، جو کورونا وائرس کو ایک سازش سمجھتے ہیں اور وہ ویکسینیشن کے بھی خلاف ہیں۔ کئی جرمن ریاستوں کے وزرائے داخلہ نے کووڈ انیس کی وبا کے حوالے سے سازشی نظریات میں اضافے سے خبردار کیا ہے۔ ریاست تھیورنگیا کے وزیر داخلہ گیئورگ مائر نے کے مطابق، ''معاشرے میں یہ سوچ موجود ہے کہ یہ وبا جان بوجھ کر پھیلائی گئی ہے تا کہ شہریوں کو قابو میں کیا جائے اور اس کے پیچھے بل گیٹس یا دیگر خفیہ قوتیں ہیں۔ تاہم یہاں مظاہرہ فوری طور پر سامیت دشمنی میں بدل گئی۔‘‘
برلن کے سینیٹر برائے داخلہ امور آندریاس گائزل نے اس تناظر میں کہا،''اس طرح کے من گھڑت نظریات رکھنے والے ان افراد تک بھی پہنچ رہے ہیں، جو ملک کے آئین اور بنیادی قانون پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ان افراد کو پھر سازشی نظریات کی تشہیر کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘ وزیر مملکت برائے داخلہ امور مارکس کریبر نے کہا کہ بیرون ملک سے جعلی خبریں اور پروپگینڈا بڑھ گیا ہے جبکہ اس دوران ملک میں بھی سازشی نظریات پھیل رہے ہیں۔
میونخ میں تین ہزار افراد اکھٹے ہوئے اور اس دوران سماجی فاصلے کے ضوابط کی بھی جزوی طور پر خلاف ورزی کی گئی۔ پولیس کے مطابق اس احتجاج کے لیے 80 افراد کا اندراج کرایا گیا تھا۔ اسی شہر کے ایک اور علاقے میں دائیں بازو کے کم از کم پچیس افراد اکھٹے ہوئے تھے، جنہیں پولیس نے منتشر کر دیا۔
شٹٹ گارٹ میں ہونے والے احتجاج میں کئی ہزار شہری موجود تھے اور اس موقع پر سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے قوانین پر سختی سے عمل کیا گیا۔ اسی طرح کے مظاہرے برلن، کولون اور بریمن میں بھی ہوئے۔
صحافیوں پر حملہ
خبر رساں ادارے 'ڈی پی اے‘ کے مطابق ڈورٹمنڈ میں تقریباﹰ ڈیڑھ سو افراد حکومتی پابندیوں کے خلاف اکھٹے ہوئے اور ان میں دائیں بازو کے شدت پسندوں کے ایک گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔ اس دوران ایسے ہی ایک نوجوان نے صحافیوں کی ایک ٹیم کی متعدد مرتبہ تضحیک کی اور رپورٹرز پر حملہ بھی کیا۔ پولیس نے اس تیئیس سالہ نوجوان کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔
بی ایف آر نامی ایک ادارے کے ایک جائزے کے مطابق دو تہائی سے زائد جرمن شہری سوشل ڈسٹینسنگ یا سماجی فاصلے کے ضوابط کے حق میں ہیں اور انہیں ضروری سمجھتے ہیں۔ مارچ میں کرائے گئے ایسے ہی ایک جائزے میں یہ شرح 92 فیصد تھی۔
ع ا /ع ت ( ڈی پی اے، کے این اے)