جرمن صدر کا دورہ بھارت: کتنا کامیاب، کتنا ناکام
4 فروری 2010جرمن صدر نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا دورہ کیا،۔ صنعت وتجارت کی انجمنوں سے خطاب کیا اور میکس مولر بھون میں دانشوروں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایک کثیر المذہبی، نسلی اور لسانی ملک ہونے کے باوجود بھارت میں جمہوریت کس طرح کامیابی سے پھل پھول رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور جرمنی ایک دوسرے کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
ہورسٹ کوہلر آٹھ سال قبل بھی بھارت کا دورہ کر چکے ہیں۔ اس وقت وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سربراہ تھے۔ انہوں نے بھارتی معیشت کی ترقی کی تعریف کی۔ جرمن صدر نے بھارت کے سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر پرتھوی راج سنگھ چوہان کے ساتھ میکس پلانک سائنس سینٹر کا افتتاح کرتے ہوئے کہا، ’جرمنی اور بھارت سائنس کے شعبے میں بھی ایک دوسرے کی ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ انڈوجرمن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اس سلسلے کا ایک نمایاں پروجیکٹ ہیے۔ میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ آف کمپیوٹر سائنس بھی ہمارے تعاون کی ایک اور مثال ہے۔ نئی دہلی میں ایک جرمن ہاؤس آف سائنس اینڈ انوویشن کا قیام ناگزیر ہے، جس کے چھت تلے تمام جرمن ادارے آجائیں گے اور مستقبل کے پارٹنر کے طور پر کام کریں گے۔‘
جرمن صدر نے علاقائی اور عالمی امور پر بھی خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، ’دہشت گردی کے خلاف ہماری سرگرمیاں ہمیں دوسری طرح کے چیلنجز سے بھٹکا نہ دیں۔ عالمگیریت زیادہ اقتصادی ترقی لاتی ہے اور خوشحالی حاصل کرنے کے زیادہ مواقع بھی پیدا کرتی ہے، لیکن اس وقت کیا ہوگا جب لوگوں کی بڑی تعداد یہ محسوس کرنے لگے کہ اس خوشحالی کے باوجود ان کی توقعات پوری نہیں ہورہیں اور صرف مایوسی ہاتھ لگ رہی ہے۔ پوری دنیا میں زیادہ انصاف کو یقینی بنانے کے لئے ہمیں زیادہ مؤثر قوانین کی ضرورت ہے۔‘
گوکہ جرمن صدر کے اس دورے کو کامیاب قرار دیا جارہا ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان کسی معاہدے پر دستخط نہ ہونے سے مایوسی کا اظہار بھی کیا جارہا ہے ۔اس کا برملا اظہار بھارت میں تعینات جرمن سفیر تھامس ماتوسیک نے بھی کیا۔ انہوں نے کہا، ’ہم دونوں ملکوں کے سربراہان مملکت کی موجودگی میں کئی معاہدوں پر دستخط کرنا چاہتے تھے۔ حالانکہ وہ معاہدوں پر دستخط نہیں کرتے لیکن ان کی موجودگی میں ان پر دستخط ہوسکتے تھے۔ متعدد معاہدے زیر غور ہیں لیکن بھارتی حکام نے ہمیں بتایا کہ یہاں کی بیوروکریسی کے طریقہ کار کے سبب ان پر دستخط ہونے میں وقت لگے گا۔‘
جرمن سفیر نے بتایا کہ جو معاہدے تیار تھے ان میں سیکیورٹی سے متعلق معاہدہ شامل ہے۔ انہوں نے کہا، ’ہم نے معاہدے کا مسودہ گزشتہ برس جولائی میں ہی بھارتی وزارت داخلہ کو بھیج دیا تھا، لیکن ہمیں بتایا گیا کہ اس مسودے پر ابھی غور وخوض جاری ہے اور وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے درمیان بحث کے بعد ہی اسے کابینہ کو بھیجا جائے گا۔‘
جرمن سفیر ہوا میں ایندھن بھرنے والے چھ طیاروں A330 کے ٹینڈر کو نئی دہلی کی طرف سے منسوخ کردئے جانے کی وجہ سے بھی ناراض ہیں۔1.31 بلین ڈالر کے اس سودے کو حاصل کرنے کے لئے جرمن کمپنی پیش پیش تھی۔ جرمن سفیر نے کہا کہ دفاعی سودوں کے سلسلے میں جرمنی ان شرطوں میں بھی چھوٹ دینے کے لئے تیار ہے، جن پر امریکہ اور دیگر ممالک کافی اصرار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’دفاعی اور سلامتی سے متعلق خریداری کے لئے End User سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے، جو ایک معمول کی شرط ہے اور سامان برآمد کرنے والے ملک لازمی طور پر یہ شرط رکھتے ہیں۔ اس کے تحت آلات کی برموقع جانچ کی اجازت ہوتی ہے۔ لیکن جرمنی مانیٹرنگ پروسس پر اصرار نہیں کرے گا۔ وہ برموقع جانچ پر بھی اصرار نہیں کرے گا ۔ مثال کے طور پر جرمنی نے کمیونیکیشن سیکٹر کے جو آلات بھارت کو دیے ہیں ان کی مانیٹرنگ پر اصرار نہیں کرتا۔ یہ چیز ہمیں دوسرے ملکوں سے ممتاز کرتی ہے۔‘
رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی
ادارت: ندیم گِل