جرمن طیارے کی تباہی، ’چیخیں بالکل آخر میں سنائی دیتی ہیں‘
26 مارچ 2015فرانسیسی شہر مارسے کے پراسیکیوٹر بریس روباں نے کہا، وہ یہ نہیں جانتے کہ اٹھائیس سالہ معاون پائلٹ آندریا لوبِٹس نے ایسا کیوں کیا لیکن لگتا یہی ہے کہ ’جرمن وِنگز‘ کے طیارے کو تباہ اُسی نے کیا۔ روباں نے کہا:’’اُس نے جانتے بوجھتے طیارے کی بلندی کو کم ہونے دیا، جس کا اُس کے پاس کوئی جواز نہیں تھا۔ اسی طرح کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ پائلٹ اِن کمانڈ کو واپس کاک پِٹ کے اندر آنے سے روکتا۔ اُس کے پاس ایئر کنٹرولر کو جواب دینے سے انکار کرنے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی، جہاں سے اُسے بار بار طیارے کی مسلسل کم ہوتی ہوئی بلندی کے حوالے سے خبردار کیا جا رہا تھا۔‘‘
روباں کے مطابق طیارے کا پائلٹ غالباً ٹوائلٹ استعمال کرنے کی غرض سے کاک پِٹ سے باہر نکلا تھا اور واپسی پر اُسے کاک پِٹ کا دروازہ بند ملا، جسے اُس نے زبردستی کھولنے کی ناکام کوشش کی:’’وائس ریکارڈر میں سنا جا سکتا ہے کہ کیسے بند دروازے کو مار مار کر توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘
روباں کے مطابق زیادہ تر مسافروں کو آخر وقت تک یہ معلوم نہیں تھا کہ عنقریب اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ روباں نے کہا:’’بالکل آخر میں جا کر آپ کو چیخیں سنائی دیتی ہیں ... لیکن یہ بات دھیان میں رکھیے کہ موت اچانک آئی ہو گی... طیارہ درحقیقت ٹکراتے ہی پرزے پرزے ہو گیا تھا۔‘‘
فرانسیسی اور جرمن ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ طیارے کو پیش آنے والا یہ حادثہ کوئی دہشت گردانہ کارروائی تھا۔ دریں اثناء معاون پائلٹ آندریاز لوبٹس کے واقف کاروں کا کہنا ہے کہ وہ ایک خوش اخلاق اور دوستانہ طرزِ عمل کا حامل ایک نوجوان تھا اور اُس نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی، جس سے یہ اشارہ ملتا ہو کہ وہ کسی کو کوئی نقصان پہنچا سکتا تھا۔
’جرمن وِنگز‘ جرمنی کی فضائی کمپنی لفتھانزا کی ذیلی ایئر لائن ہے۔ لفتھانزا کے چیف ایگزیکٹو کارسٹن شپوہر نے کہا کہ اُن کا فضائی عملہ بڑی احتیاط سے چُنا جاتا ہے اور اُنہیں نفسیاتی اعتبار سے بھی مکمل جانچ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ ساتھ ہی اُن کا کہنا تھا:’’آپ سلامتی کے جتنے مرضی ضابطے لے آئیں، آپ سکیورٹی کے کتنے ہی بلند معیارات کیوں نہ رکھیں اور ہمارے معیارات درحقیقت بہت اونچے ہیں لیکن اس طرح کے کسی واقعے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘
جرمن شہری آندریاز لوبٹس نے ستمبر 2013ء میں معاون پائلٹ کے طور پر ملازمت کا آغاز کیا تھا۔ جہاں طیارے کے اصل کپتان کا طیارہ اڑانے کا تجربہ چھ ہزار گھنٹوں پر محیط تھا، وہاں معاون پائلٹ کے طور پر آندریاز لُوبِٹس کا فلائنگ ٹائم محض چھ سو تیس گھنٹے تھا۔
طیارے کی تباہی کے بعد مرنے والوں کے جو لواحقین فرانسیسی سلسلہٴ کوہ میں جائے حادثہ پر پہنچے، اُن میں اس معاون پائلٹ کے والدین بھی شامل تھے تاہم فرانسیسی پراسیکیوٹر روباں کے مطابق اِنہیں دیگر لوگوں سے الگ تھلگ رکھا گیا تھا۔ جرمن شہر مونٹاباؤر میں لُوبِٹس کے گھر کے باہر پولیس کے گارڈ پہرا دے رہے ہیں جبکہ اُس کے واقف کاروں کا کہنا ہے کہ وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ آندریاز نے ایسا کچھ کیا ہو گا۔
فرانسیسی پراسیکیوٹر روباں کے مطابق کاک پِٹ سے پائلٹ اِن کمانڈ کے نکلنے سے پہلے دونوں پائلٹوں کے درمیان جو گفتگو ہو رہی تھی، وہ شروع تو معمول کے مطابق ہوئی لیکن بعد میں لُوبِٹس کے جوابات مسلسل مختصر ہوتے چلے گئے:’’تب ہونے والی گفتگو کو تبادلہٴ خیال نہیں کہا جا سکتا۔‘‘ یہ وہ وقت تھا، جب اس طیارے کو ڈسلڈورف میں اترنے کے لیے ویسے بھی اپنی بلندی بتدریج کم کرنے کا سلسلہ شروع کرنا تھا۔
جہاں وائس ریکارڈر مل گیا ہے، وہاں بلیک باکس کے اُس دوسرے حصے کی تلاش ابھی تک جاری ہے، جس میں طیارے کے مختلف حصوں سے متعلق ڈیٹا موجود ہو گا۔
اسی دوران ’اِیزی جیٹ‘ سمیت متعدد فضائی کمپنیوں نے اپنے سلامتی کے ضوابط میں تبدیلیوں کا اعلان کیا ہے۔ سستے سفر کی سہولت فراہم کرنے والی برطانوی کمپنی ’اِیزی جیٹ‘ کے مطابق نئے ضوابط کا اطلاق جمعے سے ہو گا۔ ناروے کی فضائی کمپنی ’ایئر شٹل‘ اور ’آئس لینڈ ایئر‘ نے بھی ایسے ہی ضوابط کا اعلان کیا ہے۔ ان ضوابط میں یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ آئندہ کاک پِٹ میں ہمیشہ بیک وقت دو افراد کی موجودگی لازمی ہوا کرے گی۔