جرمن عسکری برآمدات میں کمی، لیکن بازار گرم
21 نومبر 2013ہتھیار برآمد کرنے والے دنیا کے دس سب سے بڑے اداروں میں ایک بھی جرمن کمپنی شامل نہیں ہے۔ اس کے باوجود عالمی سطح پر جرمنی کا شمار ہتھیاروں کے سب سے بڑے برآمد کنندہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں قائم امن کے بارے میں تحقیق کرنے والے بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ SIPRI کے مطابق 2008ء سے لے کر 2012ء تک کے عرصے کے دوران اپنی اسلحے کی برآمدات کے لحاظ سے جرمنی پوری دنیا میں امریکا اور روس کے بعد تیسرے نمبر پر رہا۔
ہتھیاروں کی بین الاقوامی برآمد کے بارے میں امریکی کانگریس کی گزشتہ رپورٹ کے مطابق جرمنی عالمی سطح پر اسلحے کی تجارت میں چھٹے نمبر پر ہے۔
جرمن اسلحہ ساز اداروں میں سے سب سے زیادہ کاروبار درمیانے درجے کے وہ پیداواری ادارے کرتے ہیں، جو مثال کے طور پر جنگی ٹینک اور جنگی بحری جہاز تیار کرتے ہیں اور جن کی مصنوعات مہنگی لیکن جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے اعلیٰ ترین معیار کی حامل سمجھی جاتی ہیں۔ جرمنی میں تیار کردہ دستی استعمال میں آنے والے خود کار آتشیں ہتھیار بھی بہت بڑی مقدار میں برآمد کیے جاتے ہیں۔
جرمن اسلحے کی اسی متاثر کن برآمد کی وجہ سے بار بار یہ سوال بھی پوچھا جاتا ہے کہ آیا جرمنی کی برآمدی معیشت کا یہ پہلو برلن کی بین الاقوامی سطح پر امن کی سیاست سے ہم آہنگ ہے؟ اس لیے کہ ایسے ہتھیار درآمد کرنے والے سارے ہی ملکوں کو جمہوری نہیں کہا جا سکتا۔
وفاقی جرمن حکومت کے مطابق برلن کی امن کی سیاست اور ہتھیاروں کی برآمدات میں کوئی تضاد نہیں ہے اور اسلحہ برآمد کرنے والے دنیا کے بڑے ملکوں کی درجہ بندی کو بھی سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ جرمن کابینہ نے بدھ 20 نومبر کو سال 2012ء کے لیے اسلحے کی ملکی برآمدات سے متعلق جس رپورٹ کی منظوری دی، اس کے مطابق پچھلے برس اس سے ایک سال پہلے کے مقابلے میں جرمن ہتھیاروں کی برآمد میں کمی ہوئی اور اس تجارت کی مالیت مجموعی ملکی برآمدات کے ایک فیصد سے بھی کم رہی۔
2012ء میں جرمنی نے 4.7 بلین یورو مالیت کے ہتھیار برآمد کیے، جو 2011ء کے مقابلے میں 13 فیصد کم تھے۔ یوں تو اسلحے کی جرمن برآمدات کا ایک بڑا حصہ کینیڈا، برطانیہ اور فرانس جیسے نیٹو اور یورپی یونین کے رکن مختلف ملکوں کو بیچا گیا تاہم سب سے بڑے واحد خریدار کے طور پر سعودی عرب سب سے آگے رہا، جس نے 1.2 بلین یورو مالیت کے ہتھیار اور عسکری ساز و سامان خریدا۔ 2011ء میں ایسی جرمن مصنوعات خریدنے والے ملکوں کی فہرست میں سعودی عرب کا نام 12 ویں نمبر پر تھا۔
ہتھیاروں کی جرمن برآمدات کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ تیار کنندہ ادارے حکومتی منظوری کے بغیر کسی بھی ملک کو اپنی مصنوعات فروخت نہیں کر سکتے۔ اور حکومتی پالیسی یہ ہے کہ جرمن ہتھیار کسی ایسے ملک کو فروخت نہیں کیے جا سکتے جہاں وہ داخلی جبر و استحصال یا انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کے لیے غلط استعمال کیے جا سکتے ہوں۔