1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی سطح پر جوہری ہتھياروں ميں کمی تاہم خطرات برقرار، رپورٹ

3 جون 2013

SIPRI کے مطابق گزشتہ ايک سال کے دوران چين، بھارت اور پاکستان نے اپنے ايٹمی ہتھياروں کی تعداد ميں اضافہ کيا ہے جبکہ بقايا پانچ جوہری طاقتوں نے يا تو اپنے جوہری ہتھياروں ميں کمی کی ہے يا پھر ان کی تعداد برقرار رکھی ہے۔

https://p.dw.com/p/18ies
(FILES) A picture taken in 1971 shows a nuclear explosion in Mururoa atoll. France said on March 24, 2009 it will compensate 150,000 victims of nuclear testing carried out in the 1960s in French Polynesia and Algeria, after decades of denying its responsibility. An initial sum of 10 million euros (14 million dollars) has been set aside for military and civilian staff as well as local populations who fell ill from radiation exposure, Defence Minister Herve Morin told Le Figaro newspaper. AFP PHOTO FILES / STRINGER (Photo credit should read -/AFP/Getty Images)
Atompilzتصویر: AFP/Getty Images

اسٹاک ہوم انٹرنيشنل پيس ريسرچ انسٹيٹيوٹ (SIPRI) کی آج پير کے روز جاری کردہ سالانہ رپورٹ کے مطابق ايشيائی ملک چين اس وقت کل ڈھائی سو ايٹمی ہتھياروں کا حامل ہے جبکہ گزشتہ سال ان ہتھياروں کی تعداد 240 تھی۔ اسی طرح جنوبی ايشيائی ملک پاکستان نے بھی پچھلے ايک برس کے دوران اپنے ايٹمی ہتھياروں کی تعداد بڑھائی ہے اور اب اس کے جوہری ہتھياروں کی کل تعداد سو اور 120 کے درميان بتائی گئی ہے۔ بھارت کے ايٹمی ہتھيار بھی اسی عرصے ميں دس کے اضافے کے ساتھ اب 110 ہو گئے ہيں۔

اسٹاک ہوم انٹرنيشنل پيس ريسرچ انسٹيٹيوٹ نے اس ’آرمز ريس‘ يعنی ہتھياروں کے حصول کی دوڑ کو تشويش ناک قرار ديا ہے، جس کی بنيادی وجہ ايشيائی خطے ميں امن کی ’نازک‘ صورت حال ہے۔ واضح رہے کہ ايشيا ميں جنوبی اور شمالی کوريا کے درميان کشيدگی، چين اور جاپان کے مابين سمندری حدود و جزائر کی ملکيت سے متعلق تنازعات اور روايتی پاک بھارت کشيدگی وہ اہم معاملات ہيں، جن کی وجہ سے اسٹاک ہوم کے اس ادارے نے صورت حال کو تشويش ناک قرار ديا ہے۔

SIPRI کی رپورٹ کے مطابق، ’اگرچہ رياستوں نے ايک دوسرے کے خلاف براہ راست تنازعات و تصادم سے پرہيز کيا اور ايک دوسرے کی سرزمين پر باغی تحريکوں کی حمايت ميں کمی کی ہے تاہم صديوں پرانے شکوک و شبہات اب بھی موجود ہيں جب کہ انضمام اب تک سياسی سطح تک ہی محدود ہے۔‘

چين اب ہتھيار ايکسپورٹ کرنے والا دنيا کا پانچواں سب سے بڑا ملک ہے
چين اب ہتھيار ايکسپورٹ کرنے والا دنيا کا پانچواں سب سے بڑا ملک ہےتصویر: Getty Images

دريں اثناء روس اور امريکا نے اپنے جوہری ہتھياروں ميں کٹوتی کی ہے۔ پچھلے ايک برس کے دوران روسی جوہری ہتھيار دس ہزار سے کم ہو کر ساڑھے آٹھ ہزار رہ گئے ہيں جبکہ ايسے ہی امريکی ہتھياروں کی تعداد بھی آٹھ ہزار سے کم ہو کر سات ہزار سات سو رہ گئی ہے۔ فرانس، برطانيہ اور اسرائيل کے جوہری ہتھياروں کی تعداد وہی رہی جو پچھلے سال تھی۔ اس وقت فرانس تين سو، برطانيہ 225 اور اسرائيل 80 ’نيوکليئر وار ہيڈز‘ کا حامل ہے۔

پير کے روز جاری ہونے والی اس رپورٹ ميں سويڈن ميں قائم SIPRI نے اس بات کا بھی اعتراف کيا کہ اس کی رپورٹ ميں شامل اعداد و شمار اندازوں پر مبنی ہيں۔ ادارے نے اپنی رپورٹ ميں تاحال ايران اور شمالی کوريا کو جوہری ہتھياروں کے حامل ممالک کی فہرست ميں شامل نہيں کيا ہے۔

اسٹاک ہوم انٹرنيشنل پيس ريسرچ انسٹيٹيوٹ کے سينيئر محقق شينن کائل کے بقول اگرچہ عالمی سطح پر جوہری ہتھياروں کی تعداد ميں کمی واقع ہوئی ہے تاہم اس سے جوہری جنگ يا تصادم کے خطرے ميں کمی نہيں آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جوہری طاقت کے حامل ملکوں ميں ايٹمی ہتھياروں کو جديد تر بنانے سے متعلق فعال پروگرام اس بات کا ثبوت ہيں کہ جوہری ہتھيار اس وقت بھی عالمی سطح پر طاقت اور حيثيت کی نشانی مانے جاتے ہيں۔

رپورٹ ميں يہ بھی بتايا گيا ہے کہ روس اور امريکا نے سن 2012ء ميں اپنے تمام کيميائی ہتھيار ختم کرنے کے وعدوں پر عمل در آمد نہيں کيا۔

اسٹاک ہوم انٹرنيشنل پيس ريسرچ انسٹيٹيوٹ کی رپورٹ کے مطابق چين اب برطانيہ کی جگہ ليتے ہوئے ہتھيار ايکسپورٹ کرنے والا دنيا کا پانچواں سب سے بڑا ملک بن گيا ہے۔

(as/at (AFP