جرمن عوام میں سب سے زیادہ تشویش کی وجہ روس اور چین، سروے
6 نومبر 2022یوکرین پر روسی حملہ جرمنی میں سلامتی کی پالیسی کو ملکی ترجیحات میں سب سے آگے لے آیا ہے۔ سیاسی اور معاشی دونوں طرح کے خارجہ تعلقات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ بیجنگ کے ساتھ برلن کے تعلقات پر بھی زیادہ توجہ دی جا رہی ہے، جس کا ایک ثبوت وفاقی چانسلر اولاف شولس کا حالیہ دورہ چین ہے۔
جرمنی میں عوامی سروے کرنے والے ایک ادارے انفراٹیسٹ۔ڈی میپ کی طرف سے ملکی ووٹروں سے تازہ ترین 'ڈوئچ لینڈ ٹرینڈ‘ نامی سروے کے لیے لی گئی رائے کے مطابق صرف نو فیصد جرمن باشندے چین کو ایک قابل اعتماد پارٹنر ملک سمجھتے ہیں۔ پانچ سال پہلے یہ شرح 36 فیصد تھی۔ یہ تنزلی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حالیہ برسوں میں چین کے بارے میں جرمن عوام کا رویہ نمایاں طور پر سرد ہوا ہے۔ اس سروے کے نتائج جرمن پبلک براڈکاسٹر اے آر ڈی سے نشر کیے گئے۔
اس عوامی سروے کے نتائج کا مطلب یہ بھی ہے کہ جرمن عوام اس وقت چین کو بھی اسی طرح شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جیسے روس (دس فیصد رائے دہندگان) کو۔ دریں اثنا یہ خدشہ کہ روس مزید یورپی ممالک پر بھی حملہ کر سکتا ہے، یوکرین میں جنگ کے آغاز کے دنوں کے مقابلے میں اب کم ہو گیا ہے۔ لیکن 61 فیصد رائے دہندگان کا اب بھی یہ خیال ہے کہ روس مزید یورپی ممالک پر بھی حملہ کر سکتا یے۔
اس سروے میں حصہ لینے والے 86 فیصد جواب دہندگان نے روس کی 'عالمی خطرے کی وجہ‘ کے طور پر درجہ بندی کی جبکہ 63 فیصد نے چین کو بھی 'عالمی خطرے کی وجہ‘ گردانا۔
چین کا کیا کیا جائے؟
تجارتی تعلقات کے مستقبل کے لیے اس سروے کا کیا مطلب ہے؟ اس پس منظر میں کہ چین گزشتہ چھ برسوں سے جرمنی کا اہم ترین تجارتی شراکت دار رہا ہے۔ 'ڈوئچ لینڈ ٹرینڈ‘ نامی سروے میں جرمن رائے عامہ کے نمائندوں کے طور پر منتخب کردہ مجموعی طور پر 1,307 رائے دہندگان نے اس بارے میں کوئی واضح موقف اختیار نہ کیا۔ ہر دس میں سے تقریباً نو جرمن شہریوں نے برلن حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ملکی معاشی ضروریات پورا کرنے کے لیے غیر جمہوری ممالک پر انحصار کم کرے۔ دوسری طرف صرف قریب بیس فیصد جرمنوں نے چین کے ساتھ معاملات طے کرتے وقت وہاںانسانی حقوق کی صورت حال سے زیادہ اہم جرمن اقتصادی مفادات کو قرار دیا۔
چین کے ساتھ مستقبل کے اقتصادی تعاون سے متعلق سوال کا اس سروے میں حصہ لینے والوں نے کوئی واضح یا اکثریتی جواب نہ دیا: قریب نصف رائے دہندگان چین کے ساتھ تعاون کے دائرہ کار میں کمی کے حق میں تھے جبکہ باقی نصف تعداد نے موجودہ دوطرفہ تعلقات کو جاری رکھنے یا پھر ان میں مزید وسعت کی حمایت کی۔
اس کے برعکس اس سروے میں جرمنی کے انفراسٹرکچر میں چینی سرمایہ کاری کی واضح مخالفت دیکھی گئی۔ ہر دس میں سے تقریباً سات جواب دہندگان (69 فیصد) نے جرمن شہر ہیمبرگ کی بندرگاہ کے چار کنٹینر ٹرمینلز میں سے ایک میں چین کی سرکاری شپنگ کمپنی Cosco کی طرف سے 24.9 فیصد حصص خریدے جانے کو مسترد کر دیا۔ اس چینی کمپنی کی طرف سے مذکورہ سرمایہ کاری کی جرمن حکومت نے حال ہی میں منظوری دی تھی۔
سفارت کاری زیادہ، ہتھیار کم
یوکرین کی جنگ بدستور جرمن خارجہ پالیسی کا نمبر ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ جرمن باشندے اس جنگ کے فریقین میں سے روس کے مقابلے میں یوکرین کو بہت زیادہ ہمدردی اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر تقریباً ہر دوسرے (47 فیصد) جرمن ووٹر کے مطابق یوکرین جرمنی کے لیے ایک قابل اعتماد پارٹنر ملک ہے۔ اس کے مقابلے میں اس وقت صرف تقریباﹰ 10 فیصد جرمن باشندے روس کو جرمنی کا قابل اعتماد پارٹنر ملک سمجھتے ہیں۔
یوکرین پر روسی حملے کے حوالے سے برلن حکومت کے فوجی اور اقتصادی ردعمل سے متعلق جرمنی میں اب بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اس موضوع پر آخری سروے اگست میں کرایا گیا تھا۔ تب ہر دس میں سے چار جرمنوں نے جرمنی کی طرف سے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کی اس وقت کی سطح کو مناسب قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ تقریباً 20 فیصد وٹروں کا کہنا تھا کہ یوکرین کو فراہم کیے جانے والے جرمن ہتھیار کافی نہیں جبکہ 30 فیصد کی رائے میں تب یہ ہتھیار بھی بہت زیادہ تھے۔
تقریباﹰ 31 فیصد جواب دہندگان روس پر عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کے دائرہ کار اور ان کی شدت سے مطمئن تھے جب کہ 37 فیصد کے خیال میں یہ پابندیاں کافی نہیں۔ صرف 23 فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ روس کے خلاف عائد کردہ یہ پابندیاں بہت زیادہ ہیں۔
جہاں تک یوکرینی جنگ کے سلسلے میں جرمنی کی سفارتی کوششوں کے کافی ہونے سے متعلق عوامی سوچ کا سوال ہے، تو جرمن باشندوں کا موقف بہت واضح ہے: نصف سے زائد رائے دہندگان نے کہا کہ جرمنی کی سفارتی کوششیں کافی نہیں ہیں۔
سیاسی اپوزیشن آگے
اس سروے کے نتائج میں عوامی حمایت کے حوالے سے ملکی سطح پر حزب اختلاف کی قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) 28 فیصد تائید کے ساتھ گزشتہ ماہ کی طرح باقی تمام جماعتوں سے آگے رہی۔ موجودہ مخلوط حکومت میں شامل ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کو ممکنہ طور پر ووٹ دینے والوں کا تناسب 19فیصد ہی ریا۔ چانسلر اولاف شولس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) اپنے لیے عوامی حمایت میں دو فیصد اضافے کے ساتھ عوامی مقبولیت میں اب گرین پارٹی کے برابر آ گئی ہے۔
اس سروے میں رائے دہندگان سے پوچھا گیا تھا کہ اگر آج ملک میں عام الیکشن ہوں، تو وہ کس کو ووٹ دیں گے؟ انتہائی دائیں بازو کی جماعت 'متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کو رائے دہندگان میں سے 14فیصد، موجودہ وفاقی حکومت میں شامل فری ڈیموکریٹک پارٹی ایف ڈی پی کو چھ فیصد اور بائیں بازو کی جماعت 'دی لِنکے‘ کو پانچ فیصد عوامی تائید حاصل ہوئی۔
ش ر⁄ م م (کائے آلیکسانڈر شولس)