1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جرمن فوج دائیں بازو کی انتہا پسندی سے آزاد نہیں ہے‘

28 مئی 2020

جرمنی کی نئی فوجی محتسب خاتون ایوا ہیوگل نے کہا ہے کہ وہ جرمن فوج میں دائیں بازو کی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات کریں گی۔

https://p.dw.com/p/3culd
Deutschland Bundestag Vereidigung Eva Högl  Wehrbeautragte
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

 

جرمنی کی نئی فوجی محتسب خاتون ایوا ہیوگل نے کہا ہے کہ وہ جرمن فوج میں دائیں بازو کی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات کریں گی۔ جمعرات کو حلف برداری کی تقریب سے پہلے ڈی پی اے کو انٹرویو دیتے ہوئے ہیوگل نے کہا کہ وہ فوری طور پر اُس نئی ٹاسک فورس کے ساتھ کام کرنے پر راضی ہیں جو وزارت دفاع کے اندر شدت پسندی کی تحقیقات کے لئے قائم کی گئی تھی۔

وفاقی جرمن فوج کی نئی کمشنر

ایوا ہیوگل جرمن فوج کے محتسب اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہونے والی دوسری خاتون ہیں۔ اندرون فوج پائے جانے والے چند سنگین مسائل سے نمٹنا ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی 51 سالہ خاتون جمعرات وفاقی جرمن پارلیمان میں اپنے نئے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سے وفاقی جرمن فوجیوں کو درپیش مسائل اور دفاعی شعبے میں پائے جانے والے چند غلط رجحانات سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔

تقریبا ایک لاکھ چوراسی ہزار خواتین اور مردوں پر مشتمل وفاقی جرمن فوج کے لیے ایک وکیل کی حیثیت سے وہ برلن میں مقیم رہیں گی اور مستقبل میں جرمن فوج کی نبض پر ان کا ہاتھ ہوگا۔ وہ فوج کے تمام کارکنوں کے مسائل سنیں گی اور ان پر پارلیمان میں کھل کر بحث کریں گے اور ان کا ممکنہ حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گی۔

Claire Marienfeld erste Wehrbeauftragte CDU
سی ڈی یو کی سیاستدان کلیئرے ماریین فیلڈ جو 1995 ء سے 2000 ء تک وفاقی جرمن فوج کے داخلی معاملات کی نگراں تھیں۔تصویر: picture-alliance/dpa/G. Schnatmeyer

جنسی حملے پر کڑی اور تنقیدی نگاہ

جرمنی میں ڈیفنس کمشنر کے دفتر کی تاریخ کی دوسری خاتون کشمنر مقرر ہونے والی ایوا ہیگل کا کہنا ہے کہ،'' 2001ء کے بعد سے ، آخر کار، جرمن فوج میں خواتین بھی بطور فوجی بھرتی ہونا شروع ہوئیں۔ میں نے ہمیشہ اس کا خیرمقدم کیا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ سوشل ڈیمو کریٹ لیڈر ایوا ہیوگل سے پہلے جرمن فوج کی تاریخ میں صرف ایک اور خاتون کمشنر اس عہدے پر فائض رہ چکی ہیں۔ سی ڈی یو کی سیاستدان کلیئرے ماریین فیلڈ نے 1995 ء سے 2000 ء تک وفاقی جرمن فوج کے داخلی معاملات کی نگرانی کی تاہم ان کے دور تک خواتین کو فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت نہیں تھی۔
ہیوگل اب امید کرتی ہیں کہ وہ جرمن فوج میں خواتین کی شمولیت میں واضح اضافہ کر پائیں گی اور ان کے ساتھ ایک خاص رشتہ قائم کر سکیں گی - ایک قابل اعتماد شخصیت کی حیثیت سے جرمن خواتین فوجی اپنے مسائل کے بارے میں کھل کر ان سے بات چیت کر سکیں گی۔ خاص طور پر جنسی زیادتی کے معاملے میں۔ وہ کہتی ہیں ،''میں اسے بہت سنجیدگی سے دیکھتی ہوں۔ اسے برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ معاشرے کے کسی بھی شعبے میں نہیں اور یقیناً جرمن فوج میں بھی نہیں۔ میں جنسی حملے پر کڑی اور تنقیدی نگاہ رکھوں گی۔‘‘

Neonazi-Treffen mit Michael Kühnen
جرمنی نیو نازیز کو اپنی بدنامی کا باعث سمجھتا ہے۔تصویر: picture-alliance/dpa/von Meyerhoff

ملٹری کمشنر آفس کے قیام کا مقصد

جرمنی میں 1950ء کی دہائی کے آخر میں ملٹری کمشنر آفس تشکیل دیا گیا تھا ، اس کا مقصد یہ تھا کہ نازی حکومت کے دوران میں فوج کے اندر ہونے والی ناانصافیوں کو روکا جائے اور انہیں دہرانے سے باز رہنے کی تلقین کی جائے۔ لہذا فوجی افسران باقاعدگی سے فوج کی جانچ پڑتال کریں۔ اس سلسلے میں سیاسی سطح پر ''داخلی قیادت‘‘ بھی متعارف کروائی گئی۔ ایک اخلاقی مربوط نظام جس کے مطابق سپاہی اندھی اطاعت کے تابع نہیں ہوں بلکہ خود انحصاری اور ذمہ داری کے ساتھ '' وردی والے شہریوں‘‘ کی مانند بنیادی قانون یا آئین کی پاسداری کریں۔ انسانی وقار، مساوات اور جمہوریت کے پابند ہوں بالکل ویسے ہی جیسے عام شہری ہوا کرتے ہیں۔

فوج میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے خلاف جنگ کا اعلان

جرمنی میں مسلح افواج کے اندر دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا ایک گروپ ہے جو آئے دن اخباروں کی سرخیاں بنتا رہتا ہے۔ یہ ایک ایسا خطرہ ہے جس کا بہت کم اندازہ لگایا گیا! اس وقت فوجی انٹیلی جنس دائیں بازو کی انتہا پسندی کے شبہے میں تقریبا 550 فوجیوں کی تفتیش کر رہی ہے۔ ملٹری شیلڈ سروس (ایم اے ڈی) کے مطابق اس فہرست میں محض پچھلے سال 360 نئے مشتبہ مقدمات شامل کیے گئے۔ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ یہ اعداد و شمارمحض ایک جھلک ہیں۔ حقیقت شاید اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ایوا ہیوگل ،جرمن فوج کی اقدار کی وردی پر لگے سیاہ دھبے کے بارے میں جانتی ہیں۔ وہ چکنا ہیں ۔ شاید اس لیے بھی کہ انہوں نے دائیں بازو کے دہشت گرد این ایس یو تنظیم ''سوشل نیشنلسٹ انڈرگراؤنڈ‘‘ کے ہاتھوں ہونے والے قتل کے سلسلے کی تحقیقاتی کمیٹی میں ایس پی ڈی کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ ہیوگل کا کہنا ہے کہ،'' وفاقی جرمن فوج مجموعی طور پر معاشرے کی عکاس ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہ دائیں بازو کی انتہا پسندی سے آزاد نہیں ہے۔ اسے بہت غور اور احتیاط سے دیکھنا ہوگا کہ فوج کیسے کام کرتی ہے۔‘‘

 

کشور مصطفیٰ


 

 

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں