1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق جرمن سفير برائے پاکستان کا انٹرويو

5 اپریل 2011

جرمنی کے سابق سفير برائے پاکستان گنٹر مولاک کا انٹرويو جس ميں انہوں نے ڈوئچے ويلے کو پاکستان کے حال و مستقبل سے متعلق اپنے خيلات سے آگاہ کيا۔

https://p.dw.com/p/10njW
پاکستانی صدرتصویر: picture-alliance/ dpa

جرمنی کے سابق سفير برائے پاکستان گنٹر مولاک کا انٹرويو

ڈوئچے ویلے: پچھلے  برسوں کے دوران پاکستان کے حالات کے بارے ميں آپ کيا رائے رکھتے ہيں؟ يہ ملک کس طرف جا رہا ہے؟

گنٹر مولاک: ايک طرف تو جمہوری انتخابات اور جمہوری حکومت کے آنے کے بعد بہت سی اميديں پيدا ہوئی تھيں ليکن دوسری طرف يہ ديکھ کر مايوسی ہوتی ہے کہ ملک ميں اسلامی انتہا پسندی کا کس قدر زور ہے۔ اگرچہ صرف ايک اقليت ہی اس کی حامی ہے ليکن يہ طاقتور اور پُر اثر ہے۔ سلمان تاثير اور شہباز بھٹی کے قتل اور توہين رسالت کے قانون پر بحث سے يہ سوال بار بار اٹھتا رہتا ہے کہ کون سے اسلام کا دفاع کيا جا رہا ہے۔ آبادی کی اکثريت ان انتہا پسند گروپوں سے خائف ہے۔ بعض اوقات ميں يہ سوچتا ہوں کہ يہ پُرتشدد انتہا پسندی کوئی ايسا سرطان نہيں ہے، جو ابھی اپنے ابتدائی مرحلے ميں ہو بلکہ يہ پورے ملک ميں پھيل چکا ہے۔ اس سے جنگ کرنا مشکل ہوگا۔ 

Pakistan Geheimdienst ISI
آئی ايس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا وزير اعظم گيلانی کے ساتھتصویر: picture alliance / dpa

ڈوئچے ویلے: کيا جرمن سفارت کاری پاکستان سے اس سلسلے ميں زيادہ اقدامات کی توقع کر رہی ہے؟

گنٹر مولاک: ہميں ايک جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت سے واقعی يہ توقع ہے کہ وہ کرپشن کو روکنے، ٹيکس کے کار گر نظام پرعمل کرانے،حکومتی نظام اور کارکردگی کو بہتر بنانے اور خصوصاً قانون پر عمل کرانے کے سلسلے ميں زيادہ اقدامات کرے۔ يوں پاکستانی حکومت کو درپيش چيلنج بہت زيادہ ہيں ليکن ہم حالات ميں کچھ حقيقی بہتری کی توقع رکھتے ہيں۔

ڈوئچے ویلے: ہو سکتا ہے کہ پاکستانی، جرمنی کی وائیمار ريپبلک کی تاريخ سے کچھ سبق سيکھيں، جس کے خاتمے کے بعد نازی آمريت قائم ہوئی تھی؟

گنٹر مولاک:  بالکل۔ اور يہ بھی ہے کہ فوج ملک کی ريڑھ کی ہڈی نہيں ہے۔ فوج کو سویلین نمائندوں کے تابع ہونا چاہيے۔ اور پاکستان ميں ابھی تک يہ نہيں ہو سکا ہے۔

ڈوئچے ویلے: موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد انٹيلی جينس سروس کو اپنے قابو ميں لانے کی کوشش کی تھی ليکن وہ اس ميں بری طرح سے ناکام رہی۔ کيا آپ کے خيال ميں مستقبل ميں اس قسم کا کوئی اور موقع ملے گا؟

گنٹر مولاک: ميرے خيال ميں يہ موقع صرف اس صورت ميں مل سکتا ہے، جب پاکستان ميں واقعی ايک ايسی حکومت قائم ہو، جسے پوری آبادی، تمام عوام تسليم کرتے ہوں، جس کی صاف ستھری پاليسیوں کی وجہ سے اُس کا احترام کيا جاتا ہو اور جس کے سامنے سر تسليم خم کرنے کے لئے فوج بھی تيار ہو۔ ليکن اگر حکومت بد عنوان اور کرپٹ ہو تو آپ فوج سے يہ توقع نہيں کر سکتے کہ وہ چپ سادھے رہے۔ امريکہ بھی اس قسم کی حکومت سے مطمئن نہيں ہو سکتا۔

NO FLASH Pakistanische Armee Panzertransport
پاکستانی فوجی ٹينکتصویر: picture alliance/dpa

ڈوئچے ویلے: اس قسم کی اچھی حکومت اور خوشحالی کے حصول کا ايک طريقہ بھارت کے ساتھ قريبی تعلقات ہو سکتا ہے۔ کيا ايسا ہو گا؟ کيا دونوں ملکوں کے باہمی مذاکرات دوبارہ صحيح راہ پر آگے بڑھيں گے؟

گنٹر مولاک: پاکستان اس کا خواہشمند ہے اور کسی حد تک بھارت بھی۔ ليکن يہ سمجھنا ہوگا کہ بھارت ايک بڑا ملک ہے، جس کی آبادی ايک ارب سے بھی زيادہ ہے۔ پاکستان اُس کے مقابلے ميں ايک کہيں زيادہ چھوٹا ملک ہے۔ ليکن بھارت ميں، اسلامی انتہا پسندی کی وجہ سے، پاکستان سے خطرہ محسوس کيا جاتا ہے۔ دونوں فريقين کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے اور شايد ہمارا کام يہ ہونا چاہيے کہ ہم دونوں سے اپيل کريں کہ وہ باہمی اعتماد پيدا کرنے کے اقدامات پر عمل کريں اور پُر امن طور پر مل جل کر رہنے کی راہ اپنائيں۔

ڈوئچے ویلے: کيا جرمنی پاکستان اور بھارت کے درميان مصالحت اور ثالثی کا کام انجام دے سکتا ہے؟ کيا اُسے ايسا کرنا چاہيے؟

گنٹر مولاک: ہم تنہا يقيناً ايسا نہيں کر سکتے۔ ليکن يورپی يونين کے دائرے ميں ايسا ممکن ہے۔ پاکستان کے ساتھ مختلف طرح کے باہمی مذاکرات کے دائرے ميں ايسا ممکن ہے۔ ہمارے سياستدان اور پارليمانی اراکين اپنے دوروں ميں بار بار ان موضوعات کو چھيڑ سکتے ہيں اور وہ ايسا کرتے بھی رہتے ہيں۔ ہماری سياسی فاؤنڈيشنز بھی بھارت اور پاکستان کے سياسی فيصلے کرنے والے ذمے دار افراد کو آپس ميں ملنے کے مواقع فراہم کرتی ہيں تاکہ ان کے درميان اعتماد ميں اضافہ ہو۔

انٹرويو: گراہم لوکاس / ترجمہ: شہاب احمد صديقی

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں