جرمن فوجیوں کی فائرنگ سے پانچ افغان فوجی ہلاک
3 اپریل 2010افغان وزارت دفاع کے ترجمان زاہر عظیمی نے کہا کہ اس وقت کابل حکومت کی تمام ہمدردیاں مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ ہیں اور یہ بات ان تک پہنچا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ س واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔
محمد ظاہر عظیمی نے اس واقعے کی شدید مذمت بھی کی ۔ قندوز میں تعینات جرمن حکام نے بتایا کہ یہ افغان سیکیورٹی اہلکار دو مختلف گاڑیوں میں سوار تھے۔ یہ گاڑیاں جس وقت جرمن فوجیوں کی جانب بڑھیں تو انہیں رکنے کا اشارہ کیا گیا۔ جرمن افواج کے اشارے کونظر انداز کرنے پر ایک گاڑی پر فائرنگ کر دی گئی۔ جس سے پانچ اہلکار ہلاک ہوگئے۔
جرمن وزیر دفاع کارل تھیوڈور سوگوٹین بیرگ نے کہا کہ حالیہ واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ افغان مشن مشکل بھی ہے اور اہم بھی: ’ افغانستان کی صورتحال تشویشناک حد تک خطرناک ہے۔ اس صورتحال کو ہم نہ تو پوشیدہ رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں ایسا کرنا چاہئے۔ جرمنی افغانستان سے فوجی انخلاء کے بارے میں سوچ و بچار کر رہا ہے۔ لیکن اس وقت تک یہ ایک مشکل اور خطرناک مشن ہے اورحالیہ جھڑپین یہ واضح کر رہی ہیں کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔‘
قندوز کے گورنر محمد عمر نے ہلاک شدگان کی تعداد چھ بتائی ہے۔ محمد عمر نے کہا کہ یہ واقعہ ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ ان کے مطابق افغان نیشنل آرمی کے یہ اہلکار بین الاقوامی آئی سیف دستوں کی مدد کی غرض سے ضلع چاردارا کے راستے میں تھے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں جمعہ کو طالبان کے ساتھ جھڑپ میں تین جرمن فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
قندوز دفاعی حوالے سے بہت اہم ہے۔ یہاں سے افغان دارالحکومت کابل تک ایک شاہراہ ہے جسے اشیاء خودو نوش پہنچانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہےاور نیٹو بھی یہی راستہ عسکری سامان اور دیگر چیزوں کی تریسل کے لئے استعمال کرتا ہے۔ ’گڈ فرائیڈے‘ کو ہونے والے اس حملے کی منصوبہ بندی سے اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان آئی سیف دستوں پر اب بہتر حکمت عملی کے ساتھ حملے کر رہے ہیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: ندیم گِل