1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیوکرین

جرمن وزیر خارجہ بیئربوک غیر اعلانیہ دورے پر یوکرین میں

4 نومبر 2024

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک پیر چار نومبر کو ایک غیر اعلانیہ دورے پر یوکرین کے دارالحکومت کییف پہنچ گئیں۔ ان کے دورے کا مقصد پانچ نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی الیکشن سے قبل یوکرین کے لیے یورپی حمایت کا اظہار ہے۔

https://p.dw.com/p/4mZlE
جرمن وزیر خارجہ بیئربوک کی کییف کے مضافات میں ایک فوجی بریفنگ کے دوران لی گئی ایک تصویر
جرمن وزیر خارجہ بیئربوک کی کییف کے مضافات میں ایک فوجی بریفنگ کے دوران لی گئی ایک تصویرتصویر: Jörg Blank/dpa/picture alliance

مشرقی یورپی ملک یوکرین کو گزشتہ چند برسوں سے اپنے عسکری حوالے سے بڑے ہمسایہ ملک روس کی طرف سے ایک ایسی جارحانہ فوجی مداخلت کا سامنا ہے، جو پہلے دن سے ہی ایک باقاعدہ کی جنگ صورت اختیار کر گئی تھی اور مجموعی طور پر ہزارہا انسانوں کی ہلاکت کے باوجود ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔

منگل پانچ نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات، جن میں ریپبلکن امیدوار اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ڈیموکریٹک امیدوار اور اب تک نائب صدر کے عہدے پر فائز کملا ہیرس کا سامنا ہے، کے نتائج ممکنہ طور پر واشنگٹن کی روسی یوکرینی جنگ سے متعلق موجودہ پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کا سبب بن سکتے ہیں۔

روس اور یوکرین کے مابین دو سو سے زائد جنگی قیدیوں کا بڑا تبادلہ

اس تناظر میں جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک کا امریکی الیکشن سے صرف ایک روز قبل غیر اعلانیہ طور پر یوکرین کا دورہ کرنا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ یورپی یونین اپنی طرف سے یوکرین کی روس کے خلاف جنگ میں کییف کی تائید و حمایت میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی اور یہ بات ایک اہم سیاسی پیغام کے طور پر امریکہ پر بھی واضح ہونا چاہیے۔

وزیر خارجہ بیئربوک کییف پہنچنے کے بعد یوکرین میں تعینات جرمنی کے سفیر مارٹن ژیگر سے ہاتھ ملاتے ہوئے
وزیر خارجہ بیئربوک کییف پہنچنے کے بعد یوکرین میں تعینات جرمنی کے سفیر مارٹن ژیگر سے ہاتھ ملاتے ہوئےتصویر: Jörg Blank/dpa/picture alliance

جرمنی یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک

یوکرین کی روس کے خلاف جنگ میں جرمنی امریکہ کے بعد کییف کو ہتھیار فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر جرمن وزیر خارجہ بیئربوک اپنے آج کے دورے سے قبل بھی کئی مرتبہ واضح کر چکی ہیں کہ برلن کی طرف سے کییف کے لیے تائید و حمایت میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

روس: صدر پوٹن کا جوہری ڈیٹرینس کا نیا نظریہ کیا ہے؟

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق انالینا بیئربوک نے اپنے دورہ کییف سے قبل کہا، ''دنیا بھر میں اپنے بہت سے پارٹنر ممالک کے ساتھ مل کر جرمنی ثابت قدمی سے یوکرین کے ساتھ کھڑا ہے۔‘‘

بیئربوک کے الفاظ میں، ''ہم یوکرینی عوام کی جب تک انہیں ضرورت ہوئی، تائید و حمایت جاری رکھیں گے، تا کہ وہ ایک منصفانہ امن کی راہ پر اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔‘‘

جرمن وزیر خارجہ بیئربوک کی کییف کے مضافات میں پیر کے روز ایک گیپارڈ ٹینک کے سامنے لی گئی ایک تصویر
روس کے خلاف جنگ میں جرمنی امریکہ کے بعد کییف کو ہتھیار فراہم کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہےتصویر: Jörg Blank/dpa/picture alliance

یوکرین کے لیے جنگ بہت نازک مرحلے میں

یوکرین کی روس کے خلاف جنگ کییف حکومت کے زاویہ نگاہ سے اب بہت نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اس لیے بھی کہ روسی فوج محاذ جنگ پر سست رفتار پیش قدمی کی صورت میں ہی سہی لیکن کامیابیاں حاصل کر رہی ہے اور ماسکو کی طرف سے یوکرین کے نیشنل پاور گرڈ پر بےتحاشا بمباری کے باعث یوکرین کو ایک اور بہت کٹھن موسم سرما کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یوکرین: روس کو میزائل دینے پر ایران کے خلاف یورپی یونین کی پابندیاں

ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اور امریکی صدارتی الیکشن سے قبل یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے ابھی حال ہی میں کییف کے حامی مغربی ممالک کو ایک ایسے طویل المدتی منصوبے میں اپنا ہم سفر بنانے کی کوشش بھی کی تھی، جسے انہوں نے ایک ''وکٹری پلان‘‘ یا فتح کے منصوبے کا نام دیا تھا۔

خلیجی ریاستیں، یورپی یونین یوکرین اور مشرق وسطیٰ پر لین دین کی خواہاں

کییف میں ایک روسی ڈرون حملے کے نتیجے میں ایک رہائشی عمارت میں لگی ہوئی آگ
کییف میں ایک روسی ڈرون حملے کے نتیجے میں ایک رہائشی عمارت میں لگی ہوئی آگتصویر: Valentyn Ogirenko/REUTERS

بائیڈن کا الوداعی دورہ جرمنی، یوکرین اور نیٹو اہم موضوعات

یہ صدر زیلنسکی کے اسی منصوبے کا حصہ تھا کہ انہوں نے کہا تھا کہ یوکرین کو مغربی دفاعی اتحاد میں شمولیت کی باقاعدہ دعوت دی جانا چاہیے اور ساتھ ہی کییف حکومت کو یہ اجازت بھی دی جائے کہ وہ مغربی اتحادیوں کی طرف سے مہیا کردہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو روس کے اندر عسکری اہداف پر حملوں کے لیے استعمال کر سکے۔

صدر زیلنسکی کے اس ''وکٹری پلان‘‘ پر یوکرین کے مغربی اتحادی ممالک کا ردعمل ایسا تھا کہ وہ کییف میں ملکی قیادت کے لیے اطمینان سے زیادہ ناامیدی کا باعث بنا تھا۔

یوکرین پر روسی فوجی حملوں میں شدت

ماسکو یوکرین کے خلاف جنگ میں اب اپنے فضائی اور زمینی فوجی حملوں میں شدت لاتا جا رہا ہے۔ مغربی ممالک کے خفیہ اداروں کے ذرائع کے مطابق روس کو اب بظاہر ان 10 ہزار شمالی کوریائی فوجیوں کی مدد بھی حاصل ہے، جو ماسکو کے ساتھ اپنے ایک معاہدے کے باعث پیونگ یانگ حکومت نے مبینہ طور پر روس بھیجے ہیں۔

یوکرینی صدر زیلنسکی، دائیں، نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک رُٹے کے ساتھ
یوکرینی صدر زیلنسکی، دائیں، نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک رُٹے کے ساتھتصویر: Valentyn Ogirenko/REUTERS

اسی لیے یوکرینی صدر زیلنسکی نے ابھی ہفتے کے روز ہی کہا تھا کہ کییف کے مغربی اتحادی ممالک صرف صورت حال ''دیکھتے رہنا‘‘ بند کریں اور شمالی کوریائی دستوں کے محاذ جنگ تک پہنچنے سے قبل باقاعدہ عملی اقدامات بھی کریں۔

یوکرین جنگ: فرار ہونے والے روسی فوجیوں کا فرانس میں استقبال

اسی دوران روس نے اتوار اور پیر کی درمیانی رات یوکرین کے شمالی مشرق میں واقع دوسرے سب سے بڑے شہر خارکیف میں ایک گلائیڈ بم سے حملہ بھی کیا، جس کے نتیجے میں 15 افراد زخمی ہو گئے۔

اس کے علاوہ یوکرینی فضائیہ کے بیانات کے مطابق کل اتوار کے روز ہی روس نے یوکرین کے مختلف شہروں پر فضائی حملوں کے لیے ''شاہد‘‘ طرز کے تقریباﹰ 80 ایرانی ساختہ مسلح ڈرونز بھی بھیجے، جن میں سے زیادہ تر فضا میں ہی تباہ کر دیے گئے۔

م م / ر ب (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

شمالی کوریائی فوجی روس کی طرف سے لڑنے کے لیے تعینات؟