جرمن پارلمیان میں آج افغان مشن پر ووٹنگ
28 جنوری 2011جرمن حکومت چاہتی ہے کہ افغان مشن میں ایک سال یعنی فروری 2012ء تک کی توسیع کی جائے۔ تاہم افغانستان سے جرمن افواج کے انخلاء کے حوالے سے بھی گزشتہ کئی ہفتوں سے بحث جاری ہے۔ اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ 2011ء کے اختتام سے یہ مرحلہ شروع ہو گا لیکن اسے افغانستان کے حالات سے مشروط کر دیا گیا ہے۔
افغانستان میں اس وقت تقریبا 4,900 جرمن فوجی تعینات ہیں۔ بحران زدہ افغانستان میں امریکہ اور برطانیہ کے بعد سب سے زیادہ فوجی جرمنی کے ہی ہیں۔ امریکہ کے 80 ہزار فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔
افغانستان میں قومی سلامتی کے مشیر رنگین داد فر سپانتا کے بقول ملک کے شمالی حصے میں تعینات جرمن افواج بھی امن کے قیام میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اس حوالے سے جرمنی کا شکر گزار ہے،’ جرمنی کی موجودگی، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اور افغانستان سے بین الاقوامی برادری کی یکجہتی کا ایک ثبوت ہے‘۔
جرمنی میں افغانستان سے افواج کی واپسی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ انخلاء کی تاریخ اور طریقہ کارکے حوالے سے وفاقی وزیرخارجہ گیڈو ویسٹر ویلے اور وزیر دفاع کار ل تھیوڈور سوگوٹن برگ کے مابین ایک طویل عرصے تک بحث و مباحثہ جاری رہا۔ آخر میں اس بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ انخلاء کا فیصلہ افغانستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے کیا جائے گا۔
افغان مشن کے حوالے سے یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ جرمن فوجیوں کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز نہیں کرے گی اور ریزرو فوجی 350 ہی ہوں گے۔ 2002ء سے اب تک 45 جرمن فوجی افغاستان میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹوکے اعلان کے مطابق افغانستان میں جنگی مشن 2014ء تک ختم کر دیا جائے گا۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: عاطف بلوچ