Islam-Konvertiten
15 اپریل 2011نکول 28 برس کی ہیں اور انہوں نے چند ہی برس پہلے اسلام قبول کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بچپن میں ان کا کوئی مذہب نہیں تھا اور یہ کہ اُنہوں نے 14 سال کی عمر میں بپتسمہ لیا کیونکہ وہ مذہب میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ نکول، جو اب دو بچوں کی ماں بھی ہیں، کہتی ہیں کہ پادری اُن کے ہر سوال کے جواب میں ہمیشہ یہ کہہ دیا کرتا تھا کہ بس یہ سب کچھ ایسے ہی ہے، اِس لیے وقت کے ساتھ ساتھ وہ مسیحیت سے دور ہوتی چلی گئیں۔ اِس کے برعکس اُن کے خیال میں اسلام میں ہر بات کا واضح جواب موجود ہے۔
دریں اثناء نکول اسلام کے بارے میں کئی کتابیں پڑھ چکی ہیں اور اِس بات سے متاثر ہیں کہ ’اسلام میں کوئی تضاد نہیں ہے‘۔ نکول کے والدین اس کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں تاہم وہ سر پر اسکارف کے ساتھ اُن کے سامنے نہیں جاتی کیونکہ یہ اُن کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ اِسے دیکھ کر اُنہیں ایک ایسی خاتون کا خیال آتا ہے، جو اپنے باورچی خانے تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہو۔
35 سالہ ٹُولیا نے بھی اسلام قبول کیا لیکن عرب ملک شام سے تعلق رکھنے والے اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھے رہنے کے کئی برسوں بعد۔ وہ کہتی ہیں کہ شروع میں اُنہیں مذہب کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ پھر جب ٹُولیا نے اسلام میں اپنے شوہر کی دلچسپی اور اسلام کی عملی تصویر دیکھی تو اُنہیں ’پتہ چلا کہ اسلام ہے کیا‘۔ تین بچوں کی ماں ٹُولیا کہتی ہیں کہ ’اسلام میں وہی بھائی چارہ، خلوص، خوش اخلاقی اور انسان کے اندر اچھائی دیکھنے کا وہی تصور ہے، جو مجھے بچپن میں والدین کی تربیت سے ملا تھا‘۔
جرمن شہر آخن کے مسلمان کارکن منیر عزاؤئی جرمنوں کے اسلام قبول کرنے کے تقریباً تین سو واقعات کے شاہد ہیں اور بتاتے ہیں کہ جرمنی میں لوگ اسلام کا قائل ہونے کے بعد ہی اسے اپنے مذہب کے طور پر اپناتے ہیں۔
ایسے کوئی واضح اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، جن سے پتہ چل سکے کہ جرمنی میں دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں کی اصل تعداد کتنی ہے۔ شہر زوئیسٹ میں قائم اسلام آرکائیو کے سلیم عبداللہ بھی محض اندازہ لگاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جرمنی میں لگ بھگ 25 ہزار افراد اسلام قبول کر چکے ہیں۔
رپورٹ: حیبہ عمر / امجد علی
ادارت: مقبول ملک