جرمنی: اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد
2 اپریل 2017جرمنی کے دارالحکومت برلن میں منعقد ہونے والی جرمن یونیورسٹیوں کے ریکٹرز کی کانفرنس (ایچ آر کے) میں بتایا گیا کے اس سال مارچ کے مہینے تک 1140 مہاجرین ملک بھر کی مختلف جامعات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے مہاجرین کی موجودہ تعداد اب سے چھ ماہ قبل کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔
دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں
جرمنی: طیارے آدھے خالی، مہاجرین کی ملک بدری میں مشکلات حائل
ایچ آر کے کانفرنس میں جرمنی کے اعلیٰ تعلیم کے فراہم کرنے والے تقریباﹰ تمام پبلک اور پرائیویٹ ادارے شامل ہیں۔ ان کے مطابق موسم سرما کے سیمسٹر میں 5700 مہاجرین نے مختلف کورسز میں حصہ لیا۔ ان میں سے اکثریت جرمن زبان سیکھ رہی ہے۔ ایسے مہاجرین کی تعداد بھی گزشتہ سیمسٹر کے مقابلے میں اسی فیصد زیادہ ہے۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں میں سے اسی فیصد گریجویشن کر رہے ہیں جب کہ بقیہ بیس فیصد ایم اے کے طالب علم ہیں۔ جرمنی میں زیر تعلیم مہاجرین کی دو تہائی تعداد شامی مہاجرین کی ہے۔ جب کہ افغانستان، ایران اور عراق سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی بڑی تعداد بھی جرمن یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ رپورٹ میں پاکستانی تارکین وطن کے بارے میں کوئی اعداد و شمار نہیں مہیا کیے گئے۔
ایچ آر کے کے صدر ہورسٹ ہیپلر کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں کو اب طالب علموں کے لیے معاون پروگرام بھی ترتیب دینا ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاون پروگرام مہاجرین کی نصابی کامیابی اور شخصیت بہتر بنانے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
ہورست ہیپلر کا یہ بھی کہنا تھا کہ جرمنی میں بسنے والے ایسے مہاجرین، جن کے پاس پہلے ہی سے یونیورسٹی ڈگریاں ہیں، جامعات کو ان مہاجرین کے لیے بھی پی ایچ ڈی اور دیگر کورسز مہیا کرنا چاہییں۔
جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت و ترک وطن (بی اے ایم ایف) نے گزشتہ برس اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ملک میں قریب تیرہ فیصد مہاجرین ایسے ہیں جن کے پاس پہلے ہی سے یونیورسٹی کی ڈگریاں موجود ہیں۔ تاہم اکثر اوقات مہاجرین کے آبائی وطنوں کی ڈگریاں جرمنی میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہیں اور انہیں مزید تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔