جرمنی اور اٹلی نئی امیگریشن پالیسی پر متفق
5 مئی 2016جرمن چانسلر انگیلا مریکل اور اطالوی وزیر اعظم ماتیو رینزی کے مابین ملاقات آج روم میں ہوئی۔ دونوں اہم یورپی رہنماؤں کی ملاقات کے دوران یورپی یونین کی نئی امیگریشن پالیسی پر اتفاق کر لیا گیا۔
جرمنی نے 2016ء میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟
یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے
تاہم میرکل اور رینزی نے خبردار کیا ہے اگر یورپی یونین نے پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی کے بجائے انفرادی طور پر سرحدیں بند کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو یورپ میں قومیت پرستی کا جن ایک مرتبہ پھر بوتل سے باہر نکل آئے گا۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کی روم سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق دونوں رہنماؤں کے مابین ملاقات کے دوران پناہ گزینوں کا بحران موضوع بحث رہا۔ ملاقات میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ افریقہ سے بحیرہ روم عبور کر کے اٹلی پہنچنے والے تارکین وطن کو روکنے کے لیے افریقی ممالک کو مالی امداد فراہم کی جائے گی۔
رواں برس کے آغاز سے اب تک انتیس ہزار نئے تارکین وطن بحیرہ روم عبور کر کے اطالوی ساحلوں تک پہنچ چکے ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ترکی اور یورپی یونین کے مابین تارکین وطن کی واپسی کا معاہدہ طے پانے کے بعد اٹلی کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔
اسی خدشے کے پیش نظر آسٹریا نے گزشتہ مہینے اعلان کیا تھا کہ اٹلی سے متصل سرحدی راستوں کو خاردار تاریں لگائی جائیں گی اور بارڈر کنٹرول بھی سخت کیا جائے گا۔ میرکل اور رینزی نے آسٹریا کے اس اعلان پر بھی شدید تنقید کی ہے۔ رینزی نے آسٹریا کی جانب سے سرحد بند کرنے کی حکمت عملی کو ’فرسودہ‘ ’انتہائی غلط‘ اور ’غیر منصفانہ‘ قرار دیا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا بھی اس بارے میں کہنا تھا کہ مہاجرین کا بحران ’سرحدیں بند کرنے کی بجائے کسی اور طریقے سے‘ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ میرکل کا مزید کہنا تھا، ’’ہم اپنی سرحدوں کو بند نہیں کر سکتے، ہمیں ایک دوسرے سے وفادار رہنا ہو گا۔‘‘ میرکل نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یورپی ممالک کو شینگن زون میں آزادانہ نقل و حرکت کو یقینی بنانا ہو گا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بصورت دیگر یورپ میں ایک مرتبہ پھر قومیت پرستی فروغ پا سکتی ہے۔
میرکل اور رینزی کے مابین ملاقات کے دوران اس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا کہ افریقی ممالک کو مالی مدد کس بجٹ سے فراہم کی جائے گی۔ تاہم اطالوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات سے سروکار نہیں ہے کہ پیسے کہاں سے آئیں گے بلکہ انہیں اس بات سے مطلب ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جائیں۔