جرمنی اور پولینڈ: ولی برانٹ کا جھکنا، مفاہمت کی ابتدا
7 دسمبر 2020سات دسمبر کی صبح چانسلر ولی برانٹ وارسا کے گیٹو میموریل پہنچے۔ یہ سابق جرمن نازی دور کے قبضے اور مظالم کے خلاف یہودیوں کی بے مثال جرات کی ايک یادگار ہے۔ ولی برانٹ نے حسب روایت پھول چڑھائے اور جرمن پرچم کے رنگوں والا ربن سیدھا کیا، پھر خاموشی کے ساتھ چند قدم پیچھے ہٹے۔ چند سیکنڈ گزرے۔ اور پھر وہ اپنے گھٹنوں پر آ گئے اور اپنا سر جھکا دیا۔ فوٹوگرافر وہاں موجود تھے اور وہ یہ تصویر لیتے ہوئے جانتے تھے کہ یہ تصویر تمام دنیا تک پہنچے گی اور تاریخ کا ايک اہم موڑ ثابت ہو گی۔
امریکا جرمنی میں تعینات اپنی کچھ فوج پولینڈ منتقل کرے گا
امریکی فوجیوں کی جرمنی سے پولینڈ منتقلی کے معاہدے پر پومپیو کے دستخط
الفاظ سے اظہار سے بڑھ کر
جرمن چانسلر وِلی برانٹ نے اپنی سوانح میں لکھا تھا، ''تاریخی جرمن پس منظر اور لاکھوں انسانوں کے قتل کا بوجھ، میں نے وہی کچھ کیا جو انسان تب کرتے ہیں، جب ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچتا۔‘‘
وہ گھٹنوں کے بل یوں ہوئے، جیسے چرچ میں جا کر گناہ گار ہوا کرتے ہیں۔ بہ ظاہر انہوں نے دعا کی کہ جرمن شہریوں کو معاف کر دیا جائے۔
سوشل ڈیموکریٹک جماعت سے تعلق رکھنے والے وِلی برانٹ نے خود بھی نازیوں کے خلاف مزاحمت کی تھی۔ اس اشارے سے انہوں نے جیسے اپنی قوم کی معافی کی دعا کی۔ تو کیا گھٹنوں کے بل کھڑے ہونا ایک طے شدہ عمل تھا؟ برانٹ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں تھا۔ ''میرے قریبی ساتھی بھی نہیں جانتے تھے۔ میرے بالکل ساتھ کھڑے لوگ بھی رپورٹروں اور فوٹوگرافروں کی طرح حیران تھے۔‘‘
پولستانی حکومت کے لیے بھی يہ ایک حیرت انگيز منظر تھا۔ وارسا یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر کرسیسٹوف رشنیویچس کہتے ہیں، ''اس لمحے تک جرمنز کو 'شیطان‘ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ سمجھا جاتا تھا کہ وہ جنگی جنون میں مبتلا لوگ ہیں۔ ایسے میں ایک جرمن چانسلر اپنے مخالفین کو گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر ایک نیا اشارہ دیتا ہے۔‘‘
پروفیسر رشنیویچس اور پولستانی حکومت نے اس عمل کو دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کا عندیہ سمجھا، تاہم پارٹی پروپیگنڈا موجود تھا، جس نے جرمنی کے تشخص پر نظرثانی کے اس موقع کے خلاف زبردست مزاحمت کی۔
اکثریت کے لیے غیر اہم شے
پروفیسر رشنیویچس کے مطابق، ''عام افراد کو ذرا سا بھی علم نہیں تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔‘‘ جرمن چانسلر کی گھٹنوں کے بل ہو کر تعظیم اور معذرت کا منظر پیش کرتی یہ تصویر پولستانی اخباروں میں شائع نہیں ہوئی تھی۔ بعد میں تاہم برانٹ کی مفاہمت کی پالیسی نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی راہ ہم وار کی۔
وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ فاؤنڈیشن سے وابستہ تاریخ دان کرسٹینا میئر کے مطابق برانٹ کے اس اشارے نے ایک ٹیبو توڑ دیا تھا۔ ''جرمنی کے نازی ماضی کو دیکھا جائے، تو آپ اس اشارے کو جرمن معاشرے کے لیے گیم چینجر کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت تک بھی جرمن معاشرے میں ایک بڑی تعداد ان افراد کی تھا، جو نازیوں کے ہاتھوں ہونے والے بدترین جرائم پر معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ سن 1970 میں کرائے گئے ایک سروے میں مغربی جرمنی کے ہر دوسرے شہری نے وِلی برانٹ کے اس عمل کو رد کیا تھا اور اسے خواہ مہ خواہ کا کام قرار دیا تھا۔‘‘