1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی اور یورپ جمود کے متحمل نہیں ہو سکتے

مقبول ملک الیکسانڈر فروئنڈ
23 نومبر 2017

جرمنی میں ستمبر کے وفاقی پارلیمانی انتخابات کے بعد ملک میں نئی مخلوط حکومت کی تشکیل کے لیے ابتدائی مذاکرات غیر متوقع طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ لیکن بات یہ ہے کہ جرمنی اور یورپ کسی جمود کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

https://p.dw.com/p/2o8XF
ابتدائی مخلوط حکومتی مذاکرات کی ناکامی کے بعد چانسلر انگیلا میرکل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے، ساتھ (بائیں سے پہلے) سی ایس یو کے سربراہ ہورسٹ زے ہوفر کھڑے ہیںتصویر: Reuters/H. Hanschke

اس بارے میں ڈوئچے ویلے شعبہ ایشیا کے سربراہ الیکسانڈر فروئنڈ اپنے ایک جائزے میں لکھتے ہیں کہ چوبیس ستمبر کو ہونے والے عام الیکشن کے بعد جو جرمن سیاسی جماعتیں وفاقی پارلیمان کے ایوان زیریں یا بنڈس ٹاگ میں پہنچیں، ان میں سے چار جماعتوں یعنی چانسلر انگیلا میرکل کی کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو، باویریا میں سی ڈی یو کی ہم خیال جماعت کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو، ترقی پسندوں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی یا ایف ڈی پی اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کی کوشش یہ تھی کہ ابتدائی مکالمت میں یہ طے کیا جائے کہ آیا وہ مل کر نئی وفاقی حکومت تشکیل دے سکتی ہیں۔

Deutschland Bundespräsident Frank-Walter Steinmeier | Ende der Sondierungsgespräche in Berlin
جرمن صدر شٹائن مائر دوبارہ الیکشن کی ممکنہ تجویز کے خلاف ہیںتصویر: Reuters/A. Schmidt

جرمنی کا سیاسی بحران: صدر کی سیاسی جماعتوں سے ملاقات

سیاسی جماعتیں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، جرمن صدر

جرمنی : حکومت سازی کے لیے مذاکرات اچانک رک گئے

لیکن یہ ابتدائی بات چیت کئی ہفتے جاری رہنے کے بعد اچانک ناکام ہو گئی۔ الیکسانڈر فروئنڈ کے مطابق اب ہونا یہ چاہیے کہ جرمنی اور جرمن سیاسی منظر نامے کو اس وقت جن چیلنجوں کا سامنا ہے، ان کے پیش نظر انہی چار جماعتوں کو، جو بنیادی طور پر ایک دوسرے سے بہت مختلف نہیں ہیں، دوبارہ مل بیٹھ کر کوشش کرنی چاہیے اور کوئی ایسا حل نکالنا چاہیے، جس کے تحت برلن میں ایک نئی مخلوط وفاقی حکومت کا قیام ممکن ہو سکے۔ الیکسانڈر فروئنڈ لکھتے ہیں کہ جرمنی اور یورپ میں کسی کو بھی پوری طرح یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ برلن میں نئی وفاقی حکومت کی تشکیل کی کوششیں ناکام کیسے ہو گئیں۔ کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی اس بات چیت کی ناکامی کا اعلان ترقی پسندوں کی جماعت ایف ڈی پی نے کیا۔

Berlin Jamaika Sondierungsgespräche Lindner
فری ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ کرسٹیان لِنڈنرتصویر: Reuters/H. Hanschke

اس جماعت کے سربراہ لِنڈنر نے بالکل حیران رہ جانے والے صحافیوں کو بتایا کہ غلط طریقے سے حکومت کرنے سے بہتر ہے کہ حکومت نہ کی جائے۔ ایف ڈی پی کے سربراہ کی طرف سے مذاکرات کی ناکامی کے اس اعلان کا دیگر جماعتوں کے مذاکراتی رہنماؤں کو علم بھی صحافیوں ہی کے ذریعے ہوا تھا۔

اس ابتدائی بات چیت میں شامل چاروں سیاسی جماعتیں دراصل اپنے بنیادی سیاسی اختلافات اور مشکلات پر تو قابو پا چکی تھیں۔ پھر ناکامی کے اعلان کے بعد ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جرمنی کو ان حالات سے نکلنے میں کافی وقت لگے گا اور اس امر کی وضاحت میں بھی کہ اب ملک میں مستقبل کی وفاقی حکومت کے خد و خال کیسے ہوں گے۔

بات یہ ہے کہ صرف جرمنی میں قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ یورپی سطح پر بھی بہت سے فیصلے لازمی طور پر جلد کیے جانا ہیں۔ مثال کے طور پر اقتصادی حفاظت پسندی کی سوچ آزاد تجارت کے لیے کس طرح خطرہ بنی ہوئی ہے، مشرق وسطیٰ کے بحران اور خود یورپ میں پائے جانے والے یوکرائن جیسے تنازعے بھی، پھر ایران کے ساتھ طے پانے والا جوہری معاہدہ اور اس پر مکمل عمل درآمد، اس کے علاوہ یورپ اور جرمنی کو درپیش مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کا بحران اور مستقبل میں برطانیہ کا یورپی یونین سے اخراج یعنی بریگزٹ بھی۔

Freund Alexander Kommentarbild App
ڈوئچے ویلے شعبہ ایشیا کے سربراہ الیکسانڈر فروئنڈ

جرمنی: حکومت سازی ’سیاست‘ کی نذر ہو گئی

جرمنی ميں حکومت سازی کے ليے مذاکرات ناکام

ان تمام موضوعات سے متعلقہ جملہ سوالوں کے جوابات تبھی دیے جا سکتے ہیں، جب یورپ کا موجودہ تصور آئندہ بھی برقرار رہے۔ اس کے علاوہ یورپی یونین کو اپنی ذمے داریاں انجام دے سکنے کی اہل ایک ’جرمن فرانسیسی موٹر‘ کی ضرورت بھی ہے، جو آئندہ بھی رہے گی۔ ان حالات میں جرمنی میں پائی جانے والی سیاسی بے یقینی کی وجہ سے جرمنی اور یورپ میں سے کوئی بھی کسی بھی طرح کے سیاسی جمود کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اس پس منظر میں ایک بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ کسی بھی جمہوریت میں، جہاں منتخب سیاسی نمائندوں کا کام ریاستی نظام کو چلانا ہوتا ہے، سیاسی جماعتوں کے مفادات کبھی بھی اتنے اہم نہیں ہوتے کہ وہ ریاست اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود سے بھی بالا تر ہو جائیں۔ اسی سوچ کا عملی مظاہرہ آئندہ ہفتوں میں جرمنی میں نئی وفاقی مخلوط حکومت کی تشکیل کے لیے کوششیں کرنے والی سیاسی جماعتوں کو ہر حال میں کرنا ہو گا۔

جرمنی: مذاکرات کی ناکامی اب کیا ہو سکتا ہے؟