1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: زیر استعمال چرچ بھی مسلمان مہاجرین کی عبوری پناہ گاہ

شمشیر حیدر17 دسمبر 2015

جرمنی کے شہر بریمن میں واقع ایک ایسا کیتھولک چرچ، جسے مقامی افراد عبادت کے لیے استعمال کر رہے ہیں، کو اب عبادت کے ساتھ ساتھ شامی مہاجرین کی عارضی پناہ گاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جائے گا۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے۔

https://p.dw.com/p/1HPLt
Oberhausen Kirche Flüchtlingsunterkunft Familie
تصویر: Reuters/I. Fassbender

بریمن شہر میں واقع سینٹ بینیڈکٹ چرچ کے پادری یوہانس زربا کا کہنا ہے کہ ابتدا میں انہیں اس فیصلے پر کچھ اعتراض تو ضرور تھا لیکن آخرکار انہوں نے چرچ میں شامی تارکین وطن کو رہائش فراہم کرنے کی حمایت کی۔

دو ہفتے کے اندر اندر چرچ میں رہائشی کمرے تیار کر لیے گئے۔ اب چرچ کے ایک حصے میں مسیحی اپنی عبادت جاری رکھیں گے جب کہ اسی عمارت کے اندر بیس سے پچیس مربع میٹر کے گیارہ کمرے بنا دیے گئے ہیں جہاں چالیس شامی مہاجرین رہائش اختیار کریں گے۔

بریمن سے تعلق رکھنے والی سینیٹر آنیا زَٹامان نے چرچ کا دورہ کیا، وہ اپنی نوعیت کے اس منفرد اقدام سے بہت متاثر ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سردیوں کے موسم میں اب شامی پناہ گزینوں کو اس شہر میں خیموں میں یا کسی اسکول کی عمارت میں نہیں رہنا پڑے گا بلکہ اب انہیں ایک معقول اور محفوظ رہائش گاہ دستیاب ہو گی جہاں بنیادی ضروت کی دیگر سہولیات بھی موجود ہیں۔

اس سے پہلے بھی جرمنی میں ایک چرچ کی عمارت کو مہاجرین کی عارضی رہائش گاہ بنایا گیا تھا تاہم اسے عبادت کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا تھا۔ سینٹ بینیڈکٹ کی اہم بات یہ ہے کہ اسے ایک سال کے لیے رہائشی مقاصد کے لیے عارضی طور پر استعمال کرنے کے بعد دوبارہ کلی طور پر عبادت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور جرمنی میں کم پڑتی ہوئی سہولیات کے پیش نظر چرچ کی جانب سے اٹھایا گیا یہ اقدام نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

بریمن کی کیتھولک کمیونٹی کی ڈائریکٹر سونیا گلاسمیئر کہتی ہیں کہ کسی مسلمان کو زبردستی چرچ میں رہائش اختیار کرنے کے لیے نہیں کہا گیا۔ بلکہ جو تارکین وطن عقیدے کی وجہ سے چرچ میں نہ رہنا چاہیں، انہیں متبادل رہائش گاہ مہیا کی جائے گی۔ تاہم زَٹامان کہتی ہیں کہ کسی مسلمان تارک وطن نے چرچ میں رہنے پر اعتراض نہیں کیا۔ زَٹامان کا کہنا تھا، ’’حضرت عیسیٰ مسلمانوں کے بھی پیغمبر ہیں اس لیے یہاں رہائش اختیار کرنے والے پناہ گزینوں کو ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔‘‘

چرچ میں رہائش اختیار کرنے والے مہاجرین کا تعلق شام سے ہے۔ ان کی اکثریت شامی نوجوان لڑکوں پر مشتمل ہے تاہم ایک شامی خاندان بھی اپنے دو بچوں کے ساتھ یہاں رہائش اختیار کر رہا ہے۔ یہ تمام لوگ شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث بغیر لُٹے پٹے جرمنی پہنچے تھے اور ابھی تک وہ ایک اسکول کے ہال نما کمروں میں مقیم تھے۔

Oberhausen Kirche Flüchtlingsunterkunft betten
جرمنی میں اس سے پہلے بھی چرچ میں مہاجرین کی رہائش کا بندوبست کیا گیا تھا۔ تاہم اس چرچ کو عبادت کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا تھا۔تصویر: Reuters/I. Fassbender

تعمیر کے کام میں شامی تارکین وطن نے بھی کام کیا ہے اور انہیں اس کام کی اجرت بھی ادا کی گئی ۔ وہاں چوبیس گھنٹے سیکورٹی کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مہاجرین کے کھانے کا بھی اہتمام موجود ہے اور اس سلسلے میں خاص طور پر حلال کھانے کی فراہمی کو یقینی بنانے کا خیال رکھا گیا ہے۔

سارے انتظامات تقریباﹰ مکمل ہو چکے ہیں۔ صفائی ستھرائی مکمل ہوتے ہی شامی مہاجر یہاں منتقل ہو جائیں گے۔ یوں شام سے آئے ہوئے ان مہاجرین کے لیے کرسمس کی خوشیوں میں بھی شامل ہونے کا بہترین موقع ملے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید