جرمنی: سامیت مخالف حملہ، سیاسی و مذہبی لیڈروں کی شدید مذمت
18 اپریل 2018جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق دو اسرائیلی نوجوانوں پر حملہ کرنے والے عربی زبان بول رہے تھے جبکہ ایک حملہ آور اپنے بیلٹ سے متاثرہ لڑکے کو مارتا رہا۔ حملہ آور انہیں یہودی سمجھ کر بُرا بھلا بھی کہتے رہے لیکن متاثرہ نوجوانوں میں سے ایک کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ یہودی نہیں بلکہ اسرائیلی عرب ہیں اور کِپا انہیں بطور تحفہ دی گئی تھیں، جو انہوں نے اس وقت پہن رکھی تھیں۔ اس واقعے کے تناظر میں جرمنی کے یہودی فورم نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب وفاقی دارالحکومت میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
نازی مسلمانوں کو ساتھ ملانے میں کیسے کامیاب ہوئے تھے؟
جرمنی کی وزیر انصاف کاتارینا بارلے نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ بارلے کے مطابق برلن میں کھلے عام ایسے حملے ناقابلِ برداشت ہیں۔ یہ واقعہ جرمن دارالحکومت کے علاقے پرینسلاؤر بیرگ میں رونما ہوا ہے۔ یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں رونما ہوا ہے، جب چانسلر میرکل نے حال ہی میں سامیت دشمنی کے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک کمیشنر کا دفتر قائم کیا ہے اور اس منصب کے لیے کمیشنر نے حلف گزشتہ ماہ اٹھایا ہے۔
مہاجرین کے شیلٹر ہاؤس کو آگ لگانے والے جرمن نیو نازی کو سزا
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے بھی اپنے بیان میں ایسے افعال کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ نوجوان افراد پر حملہ صرف اس باعث کیا گیا کہ انہوں نے مذہبی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ ماس کے مطابق وہ تمام یہودیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ جرمنی میں کسی یہودی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے یہودیوں کی تحفظ کو حکومتی ذمہ داری قرار دیا ہے۔
سامیت دشمنی کی گنجائش نہیں، جرمن چانسلر میرکل
برلن پولیس کے بیان کے مطابق جن دو نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، ان کی عمریں اکیس اور چوبیس برس ہیں لیکن ان کے نام ظاہر نہیں کیے گئے ہیں۔ حملے کا نشانہ بننے والے اکیس سالہ لڑکے کا ایک اسرائیلی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر جا رہے تھے کہ تین نوجوانوں نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے انہیں طنز و تضیک کا نشانہ بنانا شروع گیا۔ پولیس کے مطابق وہ ابھی تک حملہ آوروں کی تلاش میں ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس صرف برلن میں نو سو سینتالیس سامیت مخالف واقعات رونما ہوئے تھے۔
ا ا / ع ح