جرمنی: سینکڑوں ’خطرناک‘ اسلام پسندوں میں بچے اور خواتین بھی
16 دسمبر 2017تحفظ آئین کا وفاقی دفتر کہلانے والی اندرون ملک سلامتی کی نگران جرمن انٹیلیجنس سروس یا BfV کے سربراہ ہنس گیورگ مآسین نے حال ہی میں کہا تھا کہ ملک میں امن عامہ کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے افراد کی فہرست میں شامل اور تشدد پر آمادہ مسلمانوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
’سعودی عرب جرمنی میں انتہاپسندی برآمد کر رہا ہے‘
جرمنی: کرسمس مارکیٹ کے قریب دھماکا خیز مواد برآمد
’دہشت گردی کی منصوبہ بندی‘: جرمنی میں چھ شامی مہاجرین گرفتار
اس سلسلے میں بی ایف وی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں تشدد پر آمادہ ایسے مسلمانوں کی تعداد اب 720 ہو گئی ہے، جن میں سے کوئی بھی ممکنہ طور پر کسی بھی وقت کوئی دہشت گردانہ حملہ کر سکتا ہے۔
تحفظ آئین کے وفاقی دفتر کے ذرائع نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہفتہ سولہ دسمبر کے روز جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ ان سات سو سے زائد ’خطرناک اسلام پسندوں‘ کی فہرست میں درجنوں کی تعداد میں مسلمان خواتین کے علاوہ ایسے نوجوانوں کے نام بھی شامل ہیں، جن کی عمریں اٹھارہ برس سے کم ہیں۔
ڈی پی اے کے مطابق اس فہرست میں ترمیم کے بعد جن مزید افراد کے نام شامل کیے گئے ہیں، وہ ملکی انٹیلیجنس حکام کی طرف سے باقاعدہ تفتیش اور نگرانی کے بعد اس لسٹ کا حصہ بنے۔ ان سات سو بیس ’خطرناک اسلام پسندوں‘ میں خواتین اور بچوں کی تعداد اگرچہ درجنوں میں بنتی ہے، تاہم اس فہرست میں مسلمان مردوں کی تعداد کے مقابلے میں خواتین اور نابالغ نوجوانوں کا تناسب دس فیصد سے بھی کافی کم ہے۔ یعنی اس فہرست میں 90 سے زائد نام مسلمان مردوں کے ہیں۔
دہشت گردانہ حملے کی تیاری: جرمن فوجی افسر پر فرد جرم عائد
جرمنی میں داعش کے مبینہ ’بے چہرہ‘ سربراہ پر مقدمے کا آغاز
جرمنی میں ’شریعہ پولیس‘ قائم کرنے والے کو سزائے قید
ہنس گیورگ مآسین کے حالیہ بیانات کے مطابق اس فہرست میں شامل کردہ خواتین اور نوجوانوں میں سے خاص طور پر وہ افراد قابل ذکر ہیں، جو غیر اعلانیہ طور پر شام اور عراق کے ایسے علاقوں سے واپس جرمنی لوٹے ہیں یا لوٹ رہے ہیں، جو کچھ عرصہ پہلے تک دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے قبضے میں تھے۔
شام اور عراق میں داعش کے پسپا ہوتے ہوئےجنگجو گزشتہ چند مہینوں کے دوران اپنے زیر قبضہ بہت سے علاقوں سے محروم ہو چکے ہیں اور ان جہادیوں کی اس عسکری شکست کی وجہ دمشق اور بغداد میں ملکی حکومتوں کے مسلح دستوں اور ان کے حامی ملیشیا گروپوں کی طرف سے کی جانے والی وسیع تر مشترکہ کارروائیاں بنیں۔
جرمنی میں ممکنہ طور پر تشدد اور دہشت گردانہ حملوں پر آمادہ ان ’خطرناک اسلام پسندوں‘ ہی کے بارے میں ڈی پی اے نے یہ بھی لکھا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران جرمنی سے مجموعی طور پر 950 سے زائد اسلام پسند داعش کی صفوں میں شمولیت کے لیے شام اور عراق گئے تھے۔ ان میں خواتین کی شرح قریب 20 فیصد بنتی تھی۔