جرمنی سے مذہبی شدت پسند مہاجرین کی ملک بدری میں مشکلات
8 جنوری 2017خبر رساں اداروں ڈی پی اے اور اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جرمن سکیورٹی ایجنسیوں نے ملک بھر میں ساڑھے پانچ سو سے زائد مسلم شدت پسندوں کی نشاندہی کر رکھی ہے۔ ان افراد کو ’انتہائی خطرناک‘ قرار دیا گیا ہے جو جرمنی میں ممکنہ طور پر دہشت گردانہ کارروائیاں کر سکتے ہیں۔
دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں
جرمن اخبار ’وَیلٹ اَم زونٹاگ‘ نے وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے مہیا کردہ معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان ساڑھے پانچ سو ’ممکنہ طور پر خطرناک شدت پسندوں‘ میں سے 224 غیر ملکی ہیں جب کہ باقی کے پاس جرمن شہریت ہے۔ جرمن حکام ان غیر ملکیوں میں سے باسٹھ کی جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی درخواستیں مسترد کر چکے ہیں اور انہیں فور طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ تاہم پاسپورٹ اور سفری دستاویزات نہ ہونے کے سبب انہیں ابھی تک ملک بدر نہیں کیا جا سکا۔
گزشتہ ماہ وفاقی دارالحکومت برلن کی ایک کرسمس مارکیٹ میں دہشت گردی کرنے والے انیس عامری کو بھی جرمن سکیورٹی اداروں نے ’ممکنہ طور پر خطرناک‘ افراد کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا۔
تیونس سے تعلق رکھنے والے عامری کی سیاسی پناہ کی درخواست بھی مسترد کی جا چکی تھی اور اسے جرمنی سے ملک بدر کیا جانا تھا۔ تاہم تیونس کی جانب سے اس کو پاسپورٹ جاری کرنے کے عمل میں تاخیر کے باعث ایسا ممکن نہیں ہو سکا تھا۔
جرمن صوبے باویریا کے وزیر داخلہ یوآخم ہیرمان نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے خطرناک مہاجرین کی جرمنی سے ملک بدری کے عمل میں تیزی لائی جائے۔ جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی دفتر BKA کے مطابق اس وقت ’ممکنہ خطرہ‘ سمجھے جانے والے ان مسلم شدت پسندوں میں سے اسّی افراد سکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں۔