1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی سے مہاجرین کی ملک بدری کا ’نیا ریکارڈ‘

18 نومبر 2016

جرمن حکومت رواں برس کے دوران چھبیس ہزار پانچ سو مہاجرین کو ملک بدر کر سکتی ہے۔ سن دو ہزار تین کے بعد سے سالانہ بنیادوں پر مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو جرمنی سے کبھی نہیں نکالا گیا۔

https://p.dw.com/p/2StAv
Calais Räumung Lager Dschungel
تصویر: Getty Images/AFP/P. Huguen

خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمن میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ برلن حکومت سن دو ہزار سولہ کے دوران مجموعی طور پر 26500 مہاجرین کو ملک بدر کر سکتی ہے۔ جرمن روزنامہ ’رائنیشے پوسٹ‘ کے مطابق رواں برس ستمبر تک 19914 مہاجرین کو واپس ان کے آبائی ممالک بھیجا جا چکا تھا۔

جرمنی میں ترک باشندوں کی سیاسی پناہ کی درخواستوں میں اضافہ
جرمنی: بارہ ہزار سے زائد افغان مہاجرین کی واپسی

تارکینِ وطن کا جرمنی میں فٹ بال کے ذریعے انضمام

حکومتی اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے اس جرمن اخبار نے مزید لکھا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے ان تارکین وطن میں سے تقریباﹰ تین چوتھائی کا تعلق مغربی بلقان کی مختلف ریاستوں سے تھا۔ بتایا گیا ہے کہ سن دو ہزار تین کے بعد سے جرمن حکومت نے کسی بھی سال کے دوران اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو ملک بدر نہیں کیا۔

ابھی کل جمعرات ہی کے روز جرمن اخبار ’نوئے اوسنابرؤکر سائٹنگ‘ نے ایک حکومتی دستاویز کے حوالے سے لکھا تھا کہ آئندہ کچھ عرصے میں کُل بارہ ہزار سے زائد افغان مہاجرین کو بھی ان کے وطن روانہ کر دیا جائے گا۔

اخبار ’رائنیشے پوسٹ‘ نے جرمن حکومت کے تیاری کردہ اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ گزشتہ برس یعنی سن دو ہزار پندرہ کے دوران مجموعی طور پر 20888 مہاجرین اور تارکین وطن کو جرمنی سے نکال دیا گیا تھا۔ جرمنی کو اس وقت مہاجرین کے ایک بڑے بحران کا سامنا ہے جبکہ برلن حکومت کی مہاجر دوست پالیسی کے باعث مختلف عوامی جائزوں کے نتائج کے مطابق وفاقی چانسلر میرکل کی مقبولیت میں بھی کمی ہوئی ہے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا کہنا ہے کہ برلن حکومت مہاجرین کے اس بحران پر قابو پا لے گی۔ انہوں نے متعدد مرتبہ زور دیا ہے کہ ایسے مہاجرین اور تارکین وطن، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں، انہیں واپس ان کے ممالک روانہ کرنے کے عمل میں تیزی لائی جانا چاہیے۔ گزشتہ برس ایک ملین سے زائد مہاجرین کسی نہ کسی طرح جرمنی پہنچے تھے، جس کی وجہ سے حکومت کو بہت سے انتظامی مسائل کا سامنا بھی ہے۔

Deutschland | BK Merkel auf dem IT-Gipfel in Saarbrücken
باسٹھ سالہ میرکل اتوار کے روز عالمی وقت کے مطابق شام چھ بجے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرنے والی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/O. Dietze

جرمن حکومت کے لیے مہاجرین کا بحران اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ آئندہ برس ہونے والے عام انتخابات میں یہی معاملہ متنازعہ سیاسی رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے۔ جرمن میڈیا رپورٹوں کے مطابق انگیلا میرکل ممکنہ طور پر آج سے دو روز بعد یعنی بیس نومبر اتوار کے دن یہ اعلان کر سکتی ہیں کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی چانسلرشپ کے عہدے کے لیے میدان میں اتریں گی۔

باسٹھ سالہ میرکل اتوار کے روز عالمی وقت کے مطابق شام چھ بجے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرنے والی ہیں۔ اس پریس کانفرنس سے قبل وہ اپنی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے رہنماؤں سے ملاقات بھی کریں گی۔ سن دو ہزار پانچ سے وفاقی چانسلر کے عہدے پر فائز میرکل کا کہنا ہے کہ وہ مناسب وقت پر ہی یہ اعلان کریں گی کہ آیا وہ آئندہ برس موسم خزاں میں ہونے والے انتخابات میں مزید ایک بار حکومتی سربراہ بننے کی نیت سے حصہ لیں گی۔