جرمنی مزید دس ہزار مہاجرین کو قبول کرے گا
19 اپریل 2018جرمن حکومت نے رواں ہفتے یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمیتریس آوراموپولوس کے ساتھ ایک منصوبے پر اتفاق کر لیا، جس کے تحت مزید ہزاروں تارکین وطن کو جرمنی میں آباد کیا جائے گا۔
’جرمن دستور میں اسلامی شرعی قوانین کی کوئی جگہ نہیں‘ گاؤلانڈ
جرمن آسٹرین سرحد پر بارڈر کنٹرول جاری رہے گا
شامی مہاجر جرمنی سے ترکی کیوں جا رہے ہیں؟
جرمنی کے فُنکے میڈیا گروپ نے جمعرات کے روز اپنی رپورٹوں میں بتایا کہ دیگر یورپی ممالک نے بھی اس منصوبے کے تحت قریب چالیس ہزار تارکین وطن کو پناہ دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یورپی کمشنر برائے مہاجرت رواں ہفتے جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے ساتھ برلن میں ایک ملاقات بھی کرنے والے ہیں۔ آوراموپولوس کا کہنا ہے، ’’جرمن حکومت ایک بار پھر بین الاقوامی یک جہتی کے لیے سب سے آگے ہے۔‘‘
اس پروگرام کا اعلان گزشتہ برس موسم گرما میں کیا گیا تھا، جس کے تحت ایسے ممالک جہاں کے شہریوں کو حقیقی معنوں میں سیاسی پناہ کی ضرورت ہے، انہیں اپنی زندگیاں خطرات میں ڈال کر یورپ پہنچنے کی کوششیں کرنے سے روکنے کے لیے براہ راست ان کے آبائی ممالک سے یورپ لا کر بسایا جائے گا۔
بتایا گیا ہے کہ اگلے برس کے موسم خزاں تک اس پروگرام کے تحت پچاس ہزار کے قریب تارکین وطن کو یورپی یونین میں بسایا جائے گا، جن میں بڑی تعداد شمالی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہو گی۔ یورپی یونین نے اس پروگرام کے لیے پانچ سو ملین ڈالر کی خطیر رقم مختص کی ہے۔
آوراموپولوس نے جرمنی سے اپیل کی ہے کہ وہ مہاجرین کے بحران کے دنوں میں اپنی بیرونی سرحدوں پر دوبارہ نافذ کردہ جانچ پڑتال کے نظام کو اب ختم کر دے۔ یہ بات اہم ہے کہ سن 2015 میں قریب نو لاکھ تارکین وطن جرمنی پہنچے تھے۔
یورپی یونین کا شینگن زون شہریوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی ضمانت دیتا ہے، تاہم مہاجرین کے بحران کے تناظر میں مختلف یورپی ممالک نے اپنی سرحدوں پر جانچ پڑتال کا عمل دوبارہ متعارف کرا دیا تھا، جس کے تحت ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہونے والے افراد سے اب سفری اور شناختی دستاویزات طلب کی جاتی ہیں۔ یورپی کمشنر نے کہا، ’’اب ہمیں تیزی سے شینگن نظام کی طرف واپس لوٹنا چاہیے۔‘‘
جرمنی کی جانب سے اس سے قبل اعلان کیا گیا تھا کہ وہ آسٹریا کے ساتھ اپنی قومی سرحد پر جانچ پڑتال کا موجودہ عمل جاری رکھنا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے جانچ پڑتال کے لیے اجازت مئی کے آخر تک ہے، تاہم جرمن حکومت اس مدت میں توسیع چاہتی ہے۔
ع ت / م م