جرمنی: ملک بدری کے فيصلوں ميں اضافہ، لیکن عملدرآمد کم
12 جنوری 2020
نومبر دو ہزار انیس تک جرمن حکام کی طرف سے ملک بدری کے مستحق قرار ديے گئے افراد کی تعداد ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ تاہم سن دو ہزار انیس ميں اس سے پچھلے سال کے مقابلے ميں کم افراد کی ملک بدری عمل ميں آئی۔ جرمن اخبار 'ويلٹ ام زونٹاگ‘ نے اتوار کو پوليس کے اعداد و شمار کا حوالہ ديتے ہوئے لکھا کہ گزشتہ برس 20,587 پناہ گزين ملک بدر ہو پائے جبکہ سن دو ہزار اٹھارہ میں 23,617 افراد کو ملک بدر کیا گیا۔
حکام کے مطابق ملک بدری کے احکامات پر عمل در آمد ميں بڑی رکاوٹ سفری دستاويزات کی عدم دستيابی ہے۔ متعلقہ افراد کی اگر شہریت کا تعین نہ ہو سکے، تو ان کے آبائی ممالک ان کے سفری دستاويزات جاری نہيں کرتے۔ اور اسی دوران اگر اٹھارہ ماہ کی مدت گزر جائے، تو متعلقہ افراد قانونی طور پر جرمنی ميں رہائش کے مستحق ہو جاتے ہيں اور ان کی ملکی بدری کے احکامات کارگر نہيں رہتے۔
اس عمل ميں اتنی تاخير ہوتی ہے کہ مہاجرين دوسرے طريقوں سے جرمنی ميں مستقل رہائش حاصل کر لیتے ہیں۔ کبھی بچے کی پيدائش کے ذريعے، تو کبھی کسی جرمن شہری سے شادی کر کے۔
پوليس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال کی پہلی سہ ماہی ميں بيس ہزار افراد کو ملک بدر اس ليے نہ کيا جا سکا کہ جب پوليس اہلکار ملک بدری کے ليے ان کی رہائش گاہ پر پہنچے، تو وہ اپنے بتائے ہوئے پتے پر موجود ہی نہ تھے۔
اسی طرح تين ہزار کے قريب افراد کو اس ليے ان کے آبائی ممالک روانہ نہ کيا جا سکا کہ يا تو جہاز کے پائلٹ نے انہيں جہاز پر سوار کرنے سے انکاری کر ديا يا پھر پرواز سے قبل وہ لڑائی جھگڑے ميں ملوث ہونے کی وجہ سے روانہ نہ کیے جا سکے۔
حالیہ برسوں میں جنگ اور غربت سے متاثرہ مسلم ممالک سے جرمنی آنے والے افراد کے تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ جس کے بعد جرمنی میں پناہ کے متلاشی افراد کے لیے قوانین سخت کیے گئے اور ملک بدرياں بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔
ع س / ش ج، نيوز ايجنسياں