جرمنی میں آئمہ پر غیرملکی اثر و رسوخ کا خاتمہ مقامی تربیت سے
18 نومبر 2019یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں، جہاں مسلمانوں کی تعداد کئی ملین ہے، حکومت کو طویل عرصے سے اس مسئلے کا سامنا رہا ہے کہ مسلم آبادی کے مذہبی رہنماؤں پر غیر ملکی اثر و رسوخ کو ختم کیسے کیا جائے۔ اس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ ان مذہبی شخصیات کی تربیت کے لیے ملکی سطح پر ایسے داخلی پروگرام شروع کیے جائیں، جن کی مدد سے آئمہ کی بیرون ملک تربیت پر انحصار کم سے کم کیا جا سکے۔
اب وفاقی جرمن وزارت داخلہ کے مالی تعاون سے 21 نومبر جمعرات کے دن سے ایک ایسی نئی تنظیم قائم کی جا رہی ہے، جو بنیادی طور پر تعلیمی شعبے میں کام کرے گی۔
اس نئی تنظیم کے قیام کا ایک پس منظر یہ بھی ہے کہ جرمنی میں اگرچہ مسلمانوں کی نمائندہ کئی بڑی تنظیمیں اپنے آئمہ کی تربیت کے پروگرام خود چلاتی ہیں، تاہم زیادہ تر مساجد میں آج بھی ایسے امام فرائض انجام دیتے ہیں، جن کا تعلق ترک اسلامی یونین برائے مذہبی امور یا دیتیب (DITIB) سے ہوتا ہے۔
جرمنی میں ساڑھے چار ملین مسلمان
جرمنی کی 83 ملین کے قریب آبادی میں مسلمانوں کی تعداد تقریباﹰ 4.5 ملین ہے اور ان میں سے بھی تین ملین کے قریب مسلمانوں کا تعلق نسلی یا آبائی طور پر ترکی سے ہے جبکہ دیتیب پر ترک ریاست کے بالواسطہ اثر و رسوخ سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اس بارے میں جرمنی میں ماحول پسندوں کی گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والی ترک نژاد خاتون سیاستدان فیلیس پولات نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ برلن حکومت نے آئمہ کی مقامی سطح پر تربیت کے جس پائلٹ پروگرام پر عمل درآد کا فیصلہ کیا ہے، اس کی وجہ بھی جرمنی میں مساجد کے آئمہ پر ترکی کا یہی مذہبی اور نظریاتی اثر و رسوخ بنا۔ انہوں نے کہا، ''یہ وہ اقدام ہے، جس کا ہماری پارٹی عرصے سے مطالبہ کرتی آ رہی تھی۔‘‘
نو سو مساجد کی نمائندہ تنظیم
دیتیب جرمنی میں مسلمانوں کی مذہبی اور سماجی تنظیموں کے سب سے بڑے گروپ کا اجتماعی نام ہے، جس سے تقریباﹰ 900 مساجد منسلک ہیں۔ لیکن ان مساجد کے آئمہ کی تربیت ترکی میں کی جاتی ہے، وہیں سے انہیں تنخواہیں بھی دی جاتی ہیں اور ایسے امام جرمنی بھیجے بھی ترکی سے ہی جاتے ہیں۔
ان حالات میں ایسے آئمہ کی ترک ریاست اور حکومت کے ساتھ ہمدردی لازمی سے بات ہے اور ایسے ترک مسلم مذہبی رہنما جرمنی میں اپنے فرائض انجام دیتے ہونے کے باوجود جرمن زبان و ثقافت کے کافی علم سے محروم بھی ہوتے ہیں۔
جرمن حکومت نے اب جو تجرباتی منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اسی سے ملتا جلتا ایک فیصلہ یہ بھی ہے کہ آئندہ جرمنی میں مساجد میں امامت کرانے والی مذہبی شخصیات کو یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ وہ جرمن زبان پر کافی عبور رکھتی ہیں۔
مسلمانوں کی مرکزی کونسل بھی نئی تنظیم میں شامل
اس سلسلے میں نئی قائم ہونے والی تنظیم میں جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل بھی شامل ہو گی۔ اس کی تصدیق اس کونسل کے سربراہ ایمن ماذیک نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کی۔
انہوں نے کہا، ''ہم ہمیشہ ہی تو یہ شکایت نہیں کر سکتے کہ جرمن مساجد میں امام غیر ملکی ہوتے ہیں۔ اس لیے اس نئی تنظیم کا قیام ایک مثبت قدم ہے، حالانکہ ایسا عشروں پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔‘‘
آئینی طور پر جرمنی میں ریاست کو عوام کے مذہبی معاملات سے دور رہنا چاہیے۔ رکن پارلیمان پولات کے مطابق ریاست اس بارے میں اپنی غیر جانبداری کو اس طرح یقینی بناتی ہے کہ ہر مذہبی برادری کی نمائندہ ایک ایسی ملکی تنظیم موجود ہو، جو آزاد ہو اور اپنی اور اپنی ذیلی تنظیموں کی سرگرمیوں کے جرمن قوانین سے ہم آہنگ ہونے کو یقینی بنائے۔ پولات نے بتایا کہ اس نئی تنظیم کا صدر دفتر وفاقی صوبے لوئر سیکسنی میں قائم کیا جائے گا۔
جرمنی میں اسلامیات کی تعلیم کے اب تک دستیاب مواقع
جرمنی میں اس وقت کئی شہروں میں اسلامیات کی باقاعدہ اعلیٰ تعلیم کے مواقع موجود ہیں۔ ان شہروں میں میونسٹر، ٹیوبنگن، اوسنابروک، گِیسن اور اَیرلانگن نیورمبرگ بھی شامل ہیں جبکہ گزشتہ ماہ اکتوبر میں ملکی دارالحکومت برلن کی ہمبولٹ یونیورسٹی میں بھی اسلامی مذہبی علوم کا ایک انسٹیٹیوٹ قائم کر دیا گیا تھا۔
اب تک ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان اداروں کے تعلیم یافتہ افراد فوراﹰ ہی مساجد میں آئمہ کے فرائض انجام نہیں دے سکتے، کیونکہ ان کی تعلیم نصابی ہوتی ہے اور انہیں امام بننے سے قبل باقاعدہ عملی تربیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
اب جو نئی تنظیم قائم کی جا رہی ہے، اس کا بنیادی کام یہی ہو گا کہ وہ آئمہ کو مذہبی سماجی امور کی ایسی عملی تربیت فراہم کرے، جس کے بعد جرمن مساجد میں بیرون ملک سے تربیت یافتہ آئمہ پر انحصار کم کیا جا سکے۔
سیدا سردار (م م، ک م)