1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں اسلامی اقدار کو ہمارے آئین کے مطابق ہونا چاہئے: چانسلر میرکل

8 اکتوبر 2010

وفاقی جرمن صدر کرسٹیان وولف نے تین اکتوبر کو منقسم جرمنی کے دوبارہ اتحاد کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر اپنی تقریر میں جرمنی میں اسلام کے کردار سے متعلق جو اہم بیانات دئے تھے، ان پر رائے عامہ میں گرما گرم بحث شروع ہو چکی ہے

https://p.dw.com/p/PZGl
تصویر: dapd

وفاقی مخلوط حکومت میں شامل بڑی حکمران کرسچئن ڈیموکریٹک یونین CDU کے متعدد سیاستدان اسلام کو جرمن معاشرے میں بطور مذہب مسیحیت کے برابر حیثیت دینے کے ممکنہ عمل سے متنبہ کر رہے ہیں۔ دوسری جانب جرمن صدر کو ان کے بیانات کی وجہ سے اپوزیشن کی طرف سے داد و تحسین بھی مل رہی ہے۔ جرمن صدر نے اپنی تقریر میں جہاں جرمن معاشرے میں ایک عرصے سے جاری غیر ملکیوں کے انضمام کے عمل کو مرکزی موضوع بنایا وہاں حیران کُن حد تک واضح الفاظ میں کرسٹیان وولف نے دین اسلام کے لئے تعظیم کا اظہار کیا اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ جرمن صدر نے کہا تھا: ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہودیت اور مسیحیت دو مذاہب کے طور پر تاریخی طور پر جرمنی سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاہم اب اسلام بھی جرمنی کا حصہ بن چکا ہے۔

Symbolbild Religionen in Deutschland
یہودییت اور مسحییت کے بعد اسلام بھی جرمنی کا حصہ ہے : جرمن صدرتصویر: DW

کرسٹیان وولف کے اس بیان کو کرسچئن ڈیموکریٹک یونین اور کرسچئن سوشل یونین کے قدامت پسند سیاستدانوں کی طرف سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جن کا دعویٰ ہے کہ اسلام یہودیت اور مسیحیت کی طرح جرمنی اور جرمن معاشرے کا حصہ نہیں ہے۔ وفاقی جرمن پارلیمان میں داخلہ امور کی کمیٹی کے صدر وولف گانگ بوسباخ کے بقول ’’یہاں کس اسلام کی بات ہو رہی ہے؟ وہ اسلام جو بہت سے ممالک میں ظاہری طور پر ہمارے آزاد، جمہوری بنیادی اصولوں اور ضوابط سے متصادم نظر آتا ہے؟ ایسا مذہب ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ہو سکتا۔‘‘

صدر کے بیانات کے خلاف مزاحمت اتنی زیادہ نظر آ رہی ہے کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اپنے طور پر وفاقی صدر کرسٹیان وولف کے بیانات کی وضاحت کرنا پڑ گئی۔ انہوں نے کہا ’’میرا خیال ہے صدر وولف نے ایک ایسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے، جسے میں بھی نہایت اہم سمجھتی ہوں۔ پہلی بات تو یہ کہ یہودیت اور مسیحیت کی جڑیں جرمنی میں بہت مضبوط ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں یہ واضح ہونا چاہئے کہ جرمنی میں اسلامی اقدار کو ہمارے آئین کے مطابق ہونا چاہئے، ہمارے ہاں آئین نافذ ہے نہ کہ شریعت۔‘‘

Berlin Tag der Offenen Moschee
برلن میں ہر سال ایک دن مساجد کے اوپن ڈے کا انعقاد ہوتا ہےتصویر: DW

صدر وولف کے بیانات کو تاہم جرمنی میں تارکین وطن کے سماجی انضمام کے امور کی نگران خاتون عہدیدار ماریا بَوئہمر کی حمایت حاصل ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’اچھا ہوا کہ ہمارے معاشرے کا ایک اہم مسئلہ یعنی غیر ملکیوں کے سماجی انضمام کا موضوع آخر کار اعلیٰ ترین سطح پر زیر بحث آیا ہے۔ میں جرمن صدر کی شکر گذار ہوں کہ انہوں نے اس معاملے کو بڑی شدت سے اجاگر کیا ہے۔‘‘

اپوزیشن کی طرف سے بھی کرسٹیان وولف کی تقریر کو سراہا جا رہا ہے۔ ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے رکن پارلیمان جوزف وِنکلر نے جرمن صدر کے بیانات پر تنقید کرنے والوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ صدر وولف کے بیانات کی جان بوجھ کر غلط تشریح کر رہے ہیں اور اس کے صحیح مفہوم کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ وِنکلر نے اس پوری بحث کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ’’ہم ہیں کہاں؟ آخر صدر نے ایسا کیا کہہ دیا؟ کرسٹیان وولف نے ہر گز یہ نہیں کہا کہ وہ اسلام جس میں خواتین کو دبا کر رکھا جاتا ہے، وہ جرمنی کا حصہ ہے۔ ایسی احمقانہ اور لغو بات میں نے پہلے کبھی نہیں سنی۔‘‘

ادھر بائیں بازو کے سیاسی حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ جرمنی میں تارکین وطن کو اُن کے عقیدے یا نظریات کی بنیاد پر معاشرے سے الگ تھلگ نہیں کیا جانا چاہئے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں