زاراسن کی متنازعہ سوچ: جرمنی میں تارکین وطن کاجواب
31 اگست 2010جرمنی میں مسلمان تارکین وطن کے بچوں کی نئی نسل نے مرکزی جرمن بینک کے ایک عہدیدار ٹیلو زاراسن کے متنازعہ نظریات پر زیادہ تر افسوس اور اختلاف رائے کا اظہار کیا ہے۔ زاراسن نے گزشتہ تقریباﹰ ایک ہفتہ تارکین وطن کے خلاف بیانات دیتے ہوئے گذارا۔
زاراسن کے مطابق مسلمان تارکین وطن جرمنی کی معاشرتی اقدار کی پرواہ نہیں کرتے، وہ سماجی انضمام سے انکاری ہیں اور ریاستی وسائل کو سوکھے کاغذ کی طرح چوستے ہیں۔ جرمن حکومت اور ان کی اپنی سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے زاراسن کے ان تبصروں پر شدید تنقید کی ہے۔
ٹیلو زاراسن نے، جن کی کتاب Germany Abolishes Itself کی ابھی حال ہی میں برلن میں رونمائی بھی ہوئی، اپنی اس تصنیف میں یورپ میں مسلمان تارکین کو غیر معمولی تنقید کا نشانہ بنانے کے علاوہ یہودیوں پر بھی تنقید کی۔ ان کے بقول یہودیوں میں خاص طرح کی جینیاتی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ہے۔
بنڈس بینک کہلانے والے جرمنی کے مرکزی بینک کے بورڈ کے رکن زاراسن کے مطابق وہ نہیں چاہتے کہ جرمن باشندے اپنے ہی ملک میں اجنبی بن جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وفاقی کے علاوہ ایسا جرمنی میں علاقائی بنیادوں پر بھی نہیں ہونا چاہئے۔ ان کی نئی کتاب کے بارے میں جرمنی کے کثیر الاشاعت روزنامے ’بلڈ‘ میں شائع ہونے والے تعارفی مضمون پر ملک میں گرما گرم بحث شروع ہو گئی اور پھر برلن میں اس کتاب کی باقاعدہ رونمائی بھی ہوئی۔
ٹیلو زاراسن کے اس نقطہ نظر کی جرمنی میں بہت سے سیاستدانوں نے کھل کر مذمت کی۔ چانسلر میرکل کے بقول زاراسن کا یہ کہنا قطعی ناقابل قبول ہے کہ یہودیوں کے جین مختلف ہوتے ہیں یا جرمنی میں مسلمان تارکین وطن معاشرے اور ریاست پر بوجھ ہیں۔ ٹیلو زاراسن کے اسی طرز فکر کی وجہ سے اب ان کی جماعت ایس پی ڈی انہیں اپنی صفوں سے خارج کر دینے اور ان کی پارٹی رکنیت منسوخ کر دینے کا بھی سوچ رہی ہے۔
جرمنی میں کئی ملین تارکین وطن، جن کی اکثریت کا تعلق ترک نسل کے مسلمانوں سے ہے، زیادہ تر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا جرمن معاشرے میں مکمل سماجی انضمام ایک ایسا عمل ہے، جس کے لئے اب بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد تباہ حال جرمنی کی تعمیر نو میں ’مہمان کارکن‘ کہلانے والے ان غیر ملکی تارکین وطن کے فیصلہ کن کردار سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا، جن کی سالہا سال تک اور نسل در نسل خدمات کے بغیر جرمنی وہاں نہیں ہو سکتا تھا، جہاں وہ آج ایک بڑی اقتصادی طاقت کے طور پر کھڑا ہے۔
جرمنی میں اکثر تارکین وطن ٹیلو زاراسن کے متنازعہ نقطہ نظر پر کس طرح کا رد عمل ظاہر کر رہے ہیں، اس کا اندازہ وفاقی دارالحکومت برلن میں اپنی ایک دکان چلانے والے 55 سالہ جرمن شہری زبیر تاچی کے بیان سے بھی ہو جاتا ہے۔ تاچی کی دکان برلن کے علاقے کروئس بیرگ میں ہے، جہاں ترک نسل کے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔
تاچی کا تعلق ترکی میں کرد نسل کی اقلیت سے ہے اور اب وہ ایک جرمن شہری ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’ٹیلو زاراسن کی سوچ سماجی تقسیم کا باعث بننے والی سوچ ہے۔ ہم نے اس ملک کی تعمیر میں بھر پور مدد کی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب ہم مہمان کارکنوں کے طور پر یہاں آئے تو جرمنی مکمل طور پر ایک تباہ شدہ ریاست تھا۔‘‘
برلن میں کھیلوں کے سامان کی اپنی ایک دکان چلانے والے 54 سالہ فِکریت اوکُور کے بقول جو کچھ زاراسن کہتے ہیں، وہ بھرپور میڈیا کوریج نہ ملنے کی صورت میں شاید چند ہی روز میں بھلا دیا جاتا۔’’اصل بات تو یہ ہے کہ ایسے نظریات کے لئے پلیٹ فارم مہیا کرنا بڑی خطرناک بات ہے۔‘‘
جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے رہنے والے ایک 48 سالہ ترک نژاد تارک وطن اورہان کا کہنا ہے:’’یہ زاراسن کون ہیں؟ ان کی باتوں کو کسی کو بھی سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئے۔ میں نے اس سے بھی زیادہ خطرناک بیانات سنے ہیں۔ آپ کو ایسی باتیں سرے سے ہی نظر انداز کر دینا چاہیئں۔‘‘
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: گوہر نذیر گیلانی