يہوديوں کے جين دوسروں سے مختلف، ز اراسن کا متنازعہ بیان
30 اگست 2010جرمن وزير خارجہ گیڈو ويسٹر ويلے اور يہوديوں کی مرکزی کميٹی نےزاراسن پر نسل پرستی، يہود دشمنی اور نفرت پھيلانے کا الزام لگايا ہے۔ جرمن چانسلر ميرکل نے بھی زاراسن کے نظريات پر تنقيد کی ہے اور اُنہيں قطعی طور پر ناقابل قبول قرار ديتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی وجہ سے معاشرے کے بعض گروپوں سے نفرت کی تحریک ملتی ہے۔ انہوں نے کہا:’’زاراسن غير ملکيوں کو معاشرتی دھارے ميں شامل کرنے کے اہم کام کو مشکل بنا رہے ہيں۔ ہميں اس سلسلے ميں مزيد بہت کچھ کرنا ہے ليکن زاراسن کے انداز گفتگو سے معاشرے میں تفرقہ پيدا ہو گا اور يہ بحث مشکل تر ہوجائے گی۔‘‘
اپوزيشن کی جماعت ايس پی ڈی ميں بھی زاراسن پر سخت تنقيد جاری ہے اور اُن کو پارٹی سے نکال دينے پر اب بہت سنجيدگی سے غور کيا جا رہا ہے۔ ايس پی ڈی نےآج زاراسن کے خلاف ضا بطے کی کارروائی شروع کرنے کا فيصلہ کر ليا ہے۔ ايس پی ڈی کی برلن کی صوبائی شاخ کے چيئر مين ميولر نے کہا کہ ايک سياسی پارٹی کسی رکن کی طرف سے اپنی بنيادی اقدار کی خلاف ورزی کو مستقل طور پر برداشت نہيں کر سکتی۔ زاراسن اپنے نظريات سے آبادی کے مختلف گروپوں کو معاشرے سے الگ تھلگ کر رہے ہيں اور ان نظریات کا ايس پی ڈی سے کوئی تعلق نہيں ہے۔
جرمن وزير خارجہ اور نائب چانسلر ويسٹر ويلے نے بھی کہا ہے کہ نسل پرستی اور يہود دشمنی کو ہوا دينے والے خيالات کا سياسی بحث و مباحثے سے کوئی تعلق نہيں ہے۔ وزير دفاع سُو گٹن برگ نے کہا کہ اب سوال يہ ہے کہ کيا زاراسن مرکزی بينک کے بورڈ آف ڈائرکٹرز کی رکنيت کے لائق ہيں؟
چانسلر ميرکل نے يہ بھی کہا کہ مرکزی بينک کا تعلق صرف پيسے اور مالياتی امور ہی سے نہیں ہے بلکہ وہ اندرون ملک اور بيرون ملک پورے جرمنی کی ساکھ کے لحاظ سے بھی اہم ہے اور اس لئے اس بينک ميں بھی زاراسن کو عہدے پر برقرار نہ رکھنے پر ضرور غور کيا جائے گا۔
زاراسن نے اپنی آج شائع ہونے والی کتاب ميں خاص طور پر مسلمان ملکوں کے تارکين وطن پر تنقيد کرتے ہوئے دوسری باتوں کے علاوہ يہ بھی کہا ہے کہ وہ جرمن معاشرے ميں شامل ہونا ہی نہيں چاہتے۔ انہوں نے ايک اخباری انٹرويو ميں يہ بھی کہا کہ يہودی دوسروں سے اس لئے الگ ہوتے ہيں کيونکہ اُن کے جين مختلف ہيں۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: امجد علی