جرمنی میں مسلمانوں کو پناہ دینے پر فوری پابندی کا مطالبہ
27 جولائی 2016دائیں بازو کی عوامیت پسند اور اسلام مخالف سیاسی جماعت ’آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ‘ یا اے ایف ڈی کے نائب سربراہ الیگزانڈر گاؤلینڈ کی جانب سے یہ مطالبہ جرمنی میں حالیہ پرتشدد اور دہشت گردانہ واقعات میں مبینہ طور پر اسلام پسندوں کے ملوث ہونے کے پس منظر میں کیا گیا ہے۔
ہزاروں پناہ گزین اپنے وطنوں کی جانب لوٹ گئے
ہمیں واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن
گاؤلینڈ کا کہنا تھا، ’’حالیہ دہشت گردانہ حملوں کی روشنی میں جرمنی میں مسلمان مہاجرین کو پناہ دینے کے عمل پر فی الفور پابندی عائد کر دی جانا چاہیے۔‘‘
نیوز ایجنسی ڈی پی اے اور روئٹرز کی برلن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اے ایف ڈی کے نائب سربراہ گاؤلینڈ نے آج بدھ کے روز برلن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہم مسلمان مہاجرین کو بلا جانچ پڑتال جرمنی آنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘‘
گاؤلینڈ کے اس بیان پر جرمن حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید بھی کی گئی ہے۔ وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سیاسی پناہ حاصل کرنے کے حق کو پناہ گزینوں کے مذہب سے جوڑنا ہماری رائے میں ’مذہبی آزادی کے قانون سے مطابقت نہیں رکھتا‘۔
جرمنی کے کثیر الاشاعتی جریدے ’ڈیئر اشپیگل‘ نے لکھا ہے کہ اے ایف ڈی کا ملک میں مسلمان مہاجرین کو پناہ نہ دینے کا مطالبہ جرمن کے بنیادی آئین سے متصادم ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو کے جنرل سیکرٹری پیٹر ٹاؤبر نے اے ایف ڈی کے اس مطالبے پر اپنے رد عمل میں کہا کہ ایسا کوئی بھی مطالبہ عوام میں خوف و ہراس پھیلانے اور لوگوں کو بیوقوف سمجھنے کے مترادف ہے۔
جرمنی کی گرین پارٹی کی سربراہ زیمونے پیٹر نے بھی اے ایف ڈی کے اس مطالبے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے، ’’گاؤلینڈ لوگوں کے مابین ان کے مذہب کی بنا پر امتیاز کر کے ایسے افراد کو غیر محفوظ بنانا چاہتے ہیں جو سیاسی تعاقب کا شکار ہیں۔‘‘
اے ایف ڈی کے رہنماؤں کی جانب سے ماضی میں بھی مہاجرین اور مسلمانوں کے خلاف بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ اے ایف ڈی کی سربراہ فراؤکے پَیٹری نے بھی رواں برس اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ جرمنی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کو روکنے کے لیے اگر ضرورت پڑے تو ان پر گولی بھی چلا دی جانا چاہیے۔