جرمنی میں مہاجرین سے متعلق نئے قوانین
8 جولائی 2016جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی وفاقی دارالحکومت برلن سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں یا بنڈس ٹاگ کے منظور کردہ مہاجرین کے سماجی انضمام سے متعلق نئے قوانین کے مطابق جرمن معاشرے کا حصہ بننے کی کوشش نہ کرنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کو ریاست کی جانب سے فراہم کردہ سہولیات روک دی جائیں گی۔
’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘
ہمیں واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن
وفاقی چانسلر انگیلا میرکل نے چار ماہ قبل ایسے قوانین بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ نئے سماجی قوانین تاریخی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ میرکل کا کہنا تھا کہ جرمنی کو مہاجرین کی جانب سے دو طرح کے چیلنج درپیش ہیں، جن میں سے پہلا ان کی جرمنی آمد کو محدود کرنا اور دوسرا ملک میں رہائش پذیر مہاجرین کو مقامی معاشرے میں ضم کرنا ہے۔
1960ء کی دہائی کے آغاز پر جرمنی نے ترک شہریوں کو بطور ’مہمان کارکن‘ اپنے ہاں بُلا تو لیا تھا لیکن ان لاکھوں غیر ملکیوں کو جرمن شہریت دینے اور ان کے سماجی انضمام کے لیے کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ گزشتہ برس کے دوران مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایک ملین سے زائد مہاجرین کی جرمنی آمد کے بعد ایسے قوانین کی فوری ضرورت خاص طور پر محسوس کی جا رہی تھی۔
جرمنی میں موجود مہاجرین کے بارے میں ان نئے قوانین کو ’قانون برائے سماجی انضمام‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس میں مہاجرین کے لیے سماجی انضمام کے کورسز سے لے کر ان کی تعلیم، فنی تربیت، ملازمت اور ان کے جرمنی میں رہائش کے حقوق تک جیسے سبھی پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ان قوانین پر عمل درآمد نہ کرنے والے مہاجرین کو اس عمل کے نتائج بھی بھگتنا ہوں گے۔ تعاون نہ کرنے والے مہاجرین کو نہ صرف سماجی سہولیات سے محروم کر دیا جائے گا بلکہ انہیں جاری کردہ عارضی رہائش نامے بھی منسوخ کیے جا سکیں گے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے برلن حکومت کے ان نئے قوانین پر شدید تنقید کی ہے۔ علاوہ ازیں جرمنی میں سماجی انضمام کی نگران خاتون کمشنر آئیدین اُوزوس نے بھی ان قوانین کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قوانین انہی لوگوں کو معاشرتی طور پر ’الگ تھلگ‘ کر دینے کا سبب بن جائیں گے، جنہیں معاشرے میں ضم کرنے کی کوشش کے تحت یہ قانون سازی کی گئی ہے۔
اُوزوس کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ یہ قوانین جرمنی آنے والے مہاجرین کا سماجی انضمام یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہیں تاہم ان میں ایک اہم بات کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ریاست کی فراہم کردہ ’سہولیات کا حق دار‘ کون ہو گا۔
دوسری جانب جرمن شہر بیلےفَیلڈ کی یونیورسٹی کی جانب سے گزشتہ روز جاری کیے گئے ایک جائزے کے نتائج کے مطابق ملک میں جرمن نسل کی مقامی آبادی میں مہاجرین کے سماجی انضمام پر رضا مندی میں بھی کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اس جائزے کے مطابق جرمنی میں مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کے کلچر میں بھی تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔