جرمنی میں نئی زندگی (1): آمد کے بعد کیا ہوتا ہے؟
11 جون 2017علی کا انتظار ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ تینتیس سالہ علی اور اس کا چھوٹا بھائی عراق سے بھاگ کر جرمنی آئے تھے۔ دونوں بھائی جرمن شہر بون میں مہاجرین کی ایک رہائش گاہ میں مقیم ہیں، جہاں انہیں ایک ہی کمرے میں کئی دیگر تارکین وطن کے ساتھ رہنا پڑ رہا ہے۔
مہاجرین مخالف خاتون کا مہاجر سے عشق اور اب ممکنہ سزائے قید
پناہ کے یورپی قوانین، نیا لائحہ عمل
سیاسی پناہ کے حصول کے لیے دی گئی درخواست پر ابتدائی فیصلہ آ چکا ہے، علی کی درخواست رد کر گئی تھی۔ اب اس نے وکیل کے ذریعے فیصلے کے خلاف اپیل کر رکھی ہے اور اسے امید ہے کہ نظر ثانی کے بعد اسے بطور مہاجر تسلیم کر لیا جائے گا۔ وہ جرمنی میں کسی ریستوران میں کام کرنا چاہتا ہے، پیسے کما کر الگ سے ایک گھر کرائے پر حاصل کرنا چاہتا ہے، جہاں وہ اپنے بھائی کے ساتھ رہ سکے۔ لیکن یہ سفر آسان نہیں ہو گا۔
جرمنی آنے والے تارکین وطن کا مستقبل کیا ہو گا، کتنوں کو یہاں رہنے کی اجازت ملے گی، اور کتنے دورانیے کے لیے؟ اور جنہیں رہنے کی اجازت مل چکی ہے ان کا جرمنی میں سماجی انضمام کتنا ضروری ہے، اور یہ عمل کیسے جاری ہے؟ خصوصی آرٹیکلز کے اس سلسلے میں انہیں سوالات کے جواب تلاش کیے جا رہے ہیں۔
پہلے حصے میں جانیے کہ پناہ کی تلاش میں جرمنی میں کتنے لوگ پہنچ چکے، ان کا تعلق کن ممالک سے ہے، کتنوں کو ملازمت مل چکی، کتنے ملک بدر کر دیے گئے؟
جرمنی میں مہاجرین
جرمنی میں تارکین وطن کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں آنے والے غیر ملکیوں کی اکثریت کا تعلق خانہ جنگی کے شکار ملک شام ہی سے نہیں ہے۔ وفاقی جرمن دفتر شماریات کے مطابق سن 2015 میں 2.1 ملین غیر ملکی جرمنی آئے جن میں سے پینتالیس فیصد کا تعلق یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے تھا۔ قریب تیرہ فیصد کا تعلق ایسے یورپی ممالک سے تھا جو کہ یونین کا حصہ نہیں ہیں۔ زیادہ تر مشرقی یورپی ممالک سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے بہتر معاش کی تلاش میں جرمنی کا رخ کیا۔
سن 2015 کے دوران پونے پانچ لاکھ سے بھی زیادہ افراد نے جرمنی میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دیں۔ جب کہ سن 2016 میں قریب ساڑھے سات لاکھ غیر ملکیوں نے جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں، جن میں سے زیادہ تر جرمنی پہنچے تو اس سے پچھلے برس ہی تھے، تاہم بی اے ایم ایف کے عملے کے بے حد مصروف ہونے کے باعث وہ پناہ کی درخواستیں جمع نہیں کروا پائے تھے۔
سن 2017 میں اپریل کے اواخر تک جرمنی میں مزید چھہتر ہزار افراد نے سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں۔ گزشتہ دو برسوں کے مقابلے میں درخواستوں کی تعداد کم ہونے کی بڑی وجہ ’بلقان روٹ‘ بند ہونا اور ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق طے پانے والا معاہدہ ہے۔
گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے غیر ملکیوں میں سے اکثریت کا تعلق شام سے تھا، جب کہ افغانستان اور عراق سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے تھے۔ قریب سبھی شامی شہریوں کو جرمنی میں حقیقی مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دے دی گئی تھی جب کہ عراقی باشندوں کی بڑی تعداد کو بھی مہاجر تسلیم کر لیا گیا تھا۔ افغان شہریوں کی جرمنی میں دی گئی قریب پچاس فیصد پناہ کی درخواستیں منظور کر لی گئی تھیں۔
جرمنی میں تارک وطن اور مہاجر میں فرق رکھا جاتا ہے اور پناہ ملنے کے امکانات کا تعلق بڑی حد تک تارکین وطن کی قومیت پر بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ درخواست گزاروں کو پناہ دینے یا نہ دینے کا حتمی فیصلہ پناہ کی درخواست کا انفرادی جائزہ لینے کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔
جرمنی: پناہ کی درخواستوں پر فیصلے، مہاجرین کا بڑھتا انتظار
پاکستانی تارکین وطن کی واپسی، یورپی یونین کی مشترکہ کارروائی