جرمنی میں پولیس گشت میں کمی
1 فروری 2011جرمن وزیرِ داخلہ ٹوماس دے میزیئر نے منگل کو ایک نیوزکانفرنس سے خطاب میں کہا کہ خطرہ ٹَل گیا ہے، ایسا کہنا قبل ازوقت ہو گا، تاہم خطرہ کم ہوا ہے، اس لیے پولیس کی موجودگی کم کی جا رہی ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ اس ماہ کے آخر میں ایک حملے کے بارےمیں انٹیلی جنس رپورٹس ہیں۔ تاہم وہ وقت بخریت گزر گیا۔
نومبر میں جرمنی سمیت یورپ کے مختلف ملکوں میں مسلم انتہاپسندوں کے ممکنہ حملوں کے پیش نظر برلن حکام نے اپنے ہاں سکیورٹی لیول بڑھا دیا تھا جبکہ شہروں میں تعینات پولیس کی نفری میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔
اس وقت مغربی ذرائع ابلاغ نے خبر دی تھی کہ پاکستانی انتہا پسند یورپی شہروں میں ممبئی طرز کے حملوں کی تیاری کر رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ دہشت گردی کے اس منصوبے کا اوّلین مرحلے پر ہی پتا چل گیا، جس کے بعد امریکہ نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بھی بڑھا دیے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ جرمن حکام عام طور پر ایسے انتباہ کا جواب خوفزدہ ہو کر نہیں دیتے جبکہ گزشتہ برس ایسے خطرات کے باوجود یہاں جرمنی میں کرسمس مارکیٹوں وغیرہ میں بہت رش رہا۔
واضح رہے کہ اسلام پسند جرمن سرزمین پر کبھی کوئی قابل ذکر دہشت گردانہ حملہ نہیں کر پائے۔ تاہم یہاں حکام کو دو مرتبہ ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے، جب حملہ ہو سکتا تھا۔
ایک مرتبہ لبنان سے تعلق رکھنے والے دو طالب علموں نے اپنے سامان میں بم رکھ کر ایک ٹرین میں چھوڑ دیے تھے۔ تاہم دھماکہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی کوشش ناکام رہی۔ بعدازاں دو جرمن مسلمانوں اور ایک ترک شخص کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان پر جرم ثابت ہوا کہ انہوں نے کیمیکل خرید کر اس سے بم بنایا۔
افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں میں شرکت کرنے والے درجنوں مسلمان نوجوانوں کو جرمنی میں سخت تفتیش کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: افسر اعوان