کورونا کا بحران: پابندیوں میں اضافہ کیوں نہیں؟
10 مارچ 2020بیشتر ممالک میں بڑے اجتماعات پر پابندی اور تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے لیکن جرمنی میں ابھی تک صورتحال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں؟
سوئٹزرلینڈ یا فرانس نے ایک ہزار سے زیادہ افراد کے اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اٹلی کے وزیر اعظم نے پورے ملک کو ایک محدود زون قرار دے دیا ہے۔ لیکن جرمنی میں سب کچھ انتہائی سست رفتاری سے ہو رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
اس ''سست روی‘‘ کی بنیادی وجہ جرمنی کا وفاقی نظام ہے۔ اس نظام کے تحت وفاقی حکومت بہت سے شعبوں کی منصوبہ بندی میں بلدیات کی سطح تک براہ راست مداخلت نہیں کرسکتی۔ آئین میں اس کی ضمانت موجود ہے۔ اس کے نتیجے میں، انفرادی میونسپلٹیز، بالخصوص 294 کاؤنٹیز اور 107 شہروں کی انتظامیہ کو بڑی آزادی اور خود مختاری حاصل ہے۔ مقامی حکام فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کے زیر انتظام علاقوں میں کیا ہوگا اور کیا نہیں؟ کورونا / کووِڈ 19 کیس صحت کے حکام کا معاملہ ہے جس کی طرف برلن میں وفاقی وزیر صحت جینس اسپاہن نے ایک بار پھر نشاندہی کی۔
فیصلے مرکزی نہیں بلکہ مقامی سطح پر ہوتے ہیں
مثال کے طور پر ، جرمن صوبے سیکسنی کے ایک ضلع نے پہلا کورونا کیس سامنے آنے کے بعد فوری طور پر فیصلہ کیا کہ وہ ایک سو سے زیادہ شرکاء پر مشتمل اجتماعات اور اسکولوں کے بچوں کے 'کلاس ٹرپس‘ یا دوروں پر پابندی عائد کر دی جائے۔ برانڈنبرگ میں، اب ایک پوری میونسپالٹی کو قرنطین کر دیا گیا ہے جس سے پانچ ہزار شہری متاثر ہو گئے ہیں۔ انفیکشن سے بچاؤ کے متعلقہ قوانین دراصل بنیادی قانون کے تحت تشکیل کیے گئے ہیں۔
جرمنی کی 16 وفاقی ریاستیں خود سب سے پہلے اس امر کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں کہ مقامی سطح سے باہر بھی لیبارٹریز اور ہسپتال کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں۔ اس کے علاوہ، ہر وفاقی ریاست کا اپنا سول پروٹکشن لاء یا شہری تحفظ کا ایک قانون ہے ، جس پر وزرائے داخلہ درخواست دے سکتے ہیں۔ تاہم جرمنی میں فی الحال یہ موضوع زیر بحث نہیں۔
کوئی اور بڑا ایونٹ نہیں؟
وفاقی وزیر صحت اسپاہن نے اب تجویز پیش کی ہے کہ ایک ہزار شرکاء یا اس سے زیادہ کے ساتھ ہونے والے ایونٹس یا پروگرام پر آئندہ پابندی عائد ہوگی۔ اگر ایک ہزار سے کم شرکاء موجود ہیں تو مقامی طور پر اس کا جائزہ لیا جائے گا، آیا اس تقریب کا انعقاد کیا جانا چاہیے یا نہیں۔ اس کا اطلاق اسکولوں یا فٹ بال کے کھیلوں پر بھی ہوتا ہے جو جرمنی میں بہت مقبول ہیں۔
اس وجہ سے جرمنی میں فیڈرل ازم یا وفاقی نظام کورونا کے خلاف اقدامات اور اس کے کنٹرول کے لیے مرکزی حکومتی سطح پر کچھ نہیں ہو سکتا۔
برلن میں قائم طبی سائنسی تجربات کے مرکز شیریٹی کے چیف وائرولوجسٹ کرسچن ڈروسٹن کے مطابق ،'' مرکزی حکومت کے زیر انتظام نہیں بلکہ بہت ساری علاقائی لیبارٹریز جنوری سے ہی تشخیصی عمل میں آگے آگے تھیں، اور ابتدائی طور پر کورونا کی جانچ کرنے میں کامیاب بھی ہوئیں۔ دوسرے ممالک میں ایسا نہیں تھا، مثال کے طور پر جن ممالک میں قومی صحت کے انسٹیٹیوٹ مرکزی سطح پر کام کرتے ہیں وہاں فوری طور پر ٹیسٹ کیے جاسکتے تھے۔ اس طرح انہوں نے قیمتی وقت کی بچت کی۔‘‘ ڈروسٹن نے کہا کہ ان ممالک میں یہ نہیں ہوا کہ موت کے پہلے کیس کے سامنے آنے کے بعد جانچ کی گئی۔
شہریوں کے لیے ہدایات
جرمنی کے حکام فی الحال وائرس کے پھیلاؤ میں ''سست روی‘‘ پر تمام توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ صحت کے نظام پر پائے جانے والے دباؤ کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس اور دیگر متوقع سنگین بیماریوں کا بہتر علاج کیا جائے۔ وفاقی وزیر داخلہ اسپاہن کے مطابق جرمن ہسپتالوں میں کل اٹھائیس ہزار ایسے بستر موجود ہیں جہاں مریضوں کو انتہائی نگہداشت میں رکھا جا سکے۔
خاص طور پر 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد اور ایسے شہری جنہیں پہلے سے صحت کے مسائل یا بیماریوں کا سامنا ہے۔ معمر افراد کو کورونا وائرس سے زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ ایسے افراد سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ دیگر شہریوں سے کم سے کم رابطے میں رہیں۔ جرمن وزیر داخلہ نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ خود اس پر بہت سنجیدگی سے غور کریں کہ کن کن چیزوں سے پرہیز کیا جا سکتا ہے، کن کن سرگرمیوں کو ترک کیا جا سکتا ہے۔ مجموعی طور پر، یہ وبا ہفتوں کی بجائے کچھ مہینوں تک جاری رہے گی۔
ک م/ ع آ / (کے الیگزانڈر شولس)