1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: چالیس بچوں کا جنسی استحصال روزانہ ہوتا ہے

7 جون 2019

جرمنی کے گزشتہ برس رونما ہونے والے جرائم کے اعداد و شمار سے ملکی معاشرت کی تاریک تصویر ابھری ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں بچوں کے جنسی استحصال میں اضافہ ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/3K0dc
Symbolbild - Kindesmissbrauch
تصویر: Imago Images/blickwinkel

جرمنی میں 2018ء کے دوران تقریباً پندرہ ہزار بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ برس رونما ہونے جرائم کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ ایک سو چھتیس بچوں کو پرتشدد انداز میں ہلاک کیا گیا۔ ان ہلاک شدگان میں اسی فیصد کی عمریں چھ برس یا اس سے کم تھیں۔ ان کے علاوہ اٹھانوے بچوں کو ہلاک کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔

 جرائم کی روک تھام کے ملکی ادارے بی کے اے کے سربراہ ہولگر مُونش کے مطابق 2017ء کے مقابلے میں یہ تعداد چھ فیصد زیادہ ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پندرہ ہزار کا مطلب ہے کہ اوسطاً چالیس واقعات روزانہ۔ ان کے بقول ایسے زیادہ تر جرائم خاندانوں یا سماجی گروپس میں نظروں کے سامنے رونما ہوتے ہیں اور اکثر ایسا کئی سالوں تک ہوتا رہتا ہے۔

Berlin - Pressekonferenz des Bundeskriminalamtes - Holger Münch
 جرائم کی روک تھام کے جرمن ادارے بی کے اے کے سربراہ ہولگر مُونشتصویر: picture-alliance/dpa/B. v. Jutrczenka

انہوں نے بتایا کہ بچوں کے جنسی استحصال کے اسی فیصد جرائم کا پولیس نے کامیابی سے پتہ چلایا۔ مونش نے بتایا کہ رپورٹ میں جو اعداد و شمار بیان کیے گئے ہیں وہ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق ہیں۔ پولیس کے مطابق ایسی وارداتوں میں ہمسائے، قریبی رشتہ دار یا دوست احباب کے ملوث ہونے کی صورت میں انہیں رفع دفع کر دیا جاتا ہے۔

پولیس کے اس خدشے کی بعض سماجی ماہرین بھی تصدیق کرتے ہیں۔ اِن کے خیال ہے کہ بچوں کے خلاف جنسی استحصال کے واقعات بتائے گئے اعداد و شمار سے زیادہ ہیں کیونکہ بدنامی کے ڈر سے انہیں رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ اس تناظر میں سماجی ماہرین کے خیال میں جرمنی میں آباد تارکین وطن کے کئی حلقے ایسے واقعات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ اپنے حلقے میں بدنامی کا ڈر ہے۔

 جرمن وفاقی ادارہ برائے انسدادا جرائم کے مطابق سن 2018 میں پولیس نے بچوں پر مشتمل فحش مواد (چائلڈ پورنوگرافی) تقسیم کرنے کے تقریباً ساڑھے سات ہزار واقعات کا کامیابی سے کھوج لگا کر پتہ چلایا۔ سن دوسترہ کے مقابلے میں یہ چودہ فیصد زائد ہے۔ جرمن ادارے کے مطابق چائلڈ پورنوگرافی میں بین الاقوامی رابطہ کاری اہم رہی ہے۔

ہولگر مُونش کے مطابق اس سلسلے میں بچوں کو انٹرنیٹ کے استعمال کے بارے میں بہتر طور پر آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔ اس مناسبت سے والدین اور اسکولوں کے اساتذہ کے اہم کردار کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔

ڈارک نیٹ، جہاں جرائم پیشہ افراد چائلڈ پورن فروخت کرتے ہیں

ژون ولیم شیلٹن جونیئر (عابد حسین)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں