جرمنی کے دوبارہ اتحاد کو ستائیس برس ہو گئے
3 اکتوبر 2017یومِ اتحاد جرمنی کے موقع پر ملک بھر میں ہر سال سینکڑوں دیگر تقریبات کے علاوہ ایک مرکزی تقریب کُل سولہ میں سے کسی نہ کسی وفاقی جرمن ریاست میں منعقد کی جاتی ہے۔ آج منگل کے روز یہ مرکزی تقریب ریاست رائن لینڈ پلاٹینیٹ کے دارالحکومت مائنز میں ہو رہی ہے، جس میں وفاقی چانسلر انگیلا میرکل بھی شرکت کریں گی جبکہ مرکزی خطاب وفاقی جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر کا ہو گا۔
مارگوٹ ہونیکر کی موت: کمیونسٹ جرمن تاریخ کا ایک اور باب بند
دیوار برلن کو غلطی سے کھولنے والے شابوفسکی کا انتقال
دیوار برلن کے انہدام کی 25 ویں سال گرہ، برلن میں جشن
اس سال یومِ اتحاد جرمنی کی اس مرکزی تقریب کا موٹو ہے: ’ہم سب مل کر ہی جرمنی ہیں۔‘ مائنز کے اس مرکزی اجتماع میں آج مقامی کے علاوہ ملک بھر سے سرکردہ سیاسی اور سماجی شخصیات کے ساتھ ساتھ ہزارہا جرمن شہریوں کی شرکت بھی متوقع ہے۔
مائنز میں اسی تقریب کے سلسلے میں کل پیر دو اکتوبر کے روز وہاں ایک ایسے شہری میلے کا آغاز بھی ہو گیا تھا، جس میں بہت سی شہری تنظیموں کے علاوہ تمام وفاقی جرمن صوبوں نے بھی اپنے اپنے سٹال لگا رکھے ہیں۔
اس میلے اور یومِ اتحاد جرمنی کےموقع پر مائنز ہی میں آج ایک بڑے میوزک میلے اور دریائے رائن پر بہت بڑی آتش بازی کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ اس موقع پر سلامتی کے انتظامات اور امن عامہ کو یقنی بنانے کے لیے مائنز میں قریب ساڑھے چار ہزار پولیس اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔
’وہ لوگ بہت باہمت تھے‘، چانسلر میرکل
نصف صدی گزرنے پر دیوارِ برلن کی تعمیر کی یاد
دیوار برلن کے انہدام سے سوویت یونین کا ٹوٹنا طے ہوا
اسی جرمن یونیفیکیشن ڈے کے موقع پر وفاقی جرمن پارلیمان کے وفاقی ریاستوں کے نمائندہ ایوان بالا یا بنڈس راٹ کی خاتون صدر اور رائن لینڈ پلاٹینیٹ کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی وزیر اعلیٰ مالُو درائر نے منگل کے روز کہا کہ جرمنی میں سیاسی جماعتوں پر عوامی اعتماد میں اضافے کے لیے عام شہریوں کے ساتھ حکومت اور سیاستدانوں کی زیادہ مکالمت کی ضرورت ہے۔
حالیہ وفاقی پارلیمانی انتخابات میں بہت سے جرمن ووٹروں کی طرف سے دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت اے ایف ڈی کی حمایت کے پس منظر میں مالُو درائر نے کہا، ’’جب عوامی مسائل کا حل براہ راست عوام کے ساتھ مکالمت کے ذریعے نکالا جائے گا تو پھر کسی کو یہ خطرہ نہیں ہو گا کہ جرمنی میں دائیں یا بائیں بازو کی انتہا پسندی یا عوامیت پسندی کو تقویت مل رہی ہے۔‘‘