جزیرہ نماکوریا جنگ کے دہانے پر
25 مئی 2010بیجنگ اور واشنگٹن کے مابین اقتصادی اور سیاسی تعاون پر ہونے والی دو روزہ کانفرنس کے بعد یہ مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ چین اور امریکہ کی طرف سے جزیرہ نماکوریا کی بحرانی صورتحال کے فوری حل کے لئے دئے گئے بیان کے بعد بھی صورتحال بدستور کشیدہ ہے۔ شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر الزام عائد کیا ہے کہ سیول حکومت سمندری حدود کی خلاف وزری کی مرتکب ہو رہی ہے اور اگر یہ عمل نہ روکا گیا تو وہ عسکری کارروائی سے گریز نہیں کرے گا۔
گزشتہ ہفتے ایک بین الاقوامی غیر جانبدانہ تحقیقاتی کمیشن نے انکشاف کیا تھا کہ 26 مارچ کو جنوبی کوریا کا جنگی بحری جہاز محض ایک حادثہ کی وجہ سے نہیں ڈوبا تھا بلکہ اسے شمالی کوریا نے دانستہ طور پرتباہ کیا تھا۔ اس واقعہ میں جہاز میں سوار 46افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد سے ہی دونوں ممالک کے مابین تعلقات ایک مرتبہ دوبارہ کشیدہ ہو گئے ہیں۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ جنوبی کوریا کے بحری جہاز کو ایک تارپیڈو حملےکے ذریعے تباہ کیا گیا۔ شمالی کوریا ایسے تمام الزامات کو مسترد کر رہا ہے۔
اس واقعہ کے بعد جزیرہ نما کوریامیں حالات کشیدہ ہو گئے ہیں اور روایتی حریف ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر آن پہنچے ہیں۔ منگل کوامریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا کہ واشنگٹن حکومت چین سمیت فریقین کے ساتھ مل کر اس کشیدہ صورتحال کو معمول پر لانے کے لئے ضروری اقدامات کرے گی۔
عالمی منظر نامے پر شمالی کوریا کے حلیف سمجھے جانے والے چین نے ابھی تک اس واقعہ کی مذمت نہیں کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی وجہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پیونگ یانگ پر پابندیاں لگانا بھی مشکل ہو گا کیونکہ چین کے پاس ویٹو کا حق ہے۔
چینی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بیجنگ جزیرہ نما کوریا میں بحرانی صورتحال کے خاتمے کے لئے امریکہ سے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گا۔
چینی اسٹیٹ کونسلر Dai Bingguao نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ چین اور امریکہ سمجھتے ہیں کہ مشرقی ایشیا اور جزیرہ نما کوریا میں قیام امن نہایت اہم ہے۔ اس پریس کانفرنس میں دیگر اعلیٰ امریکی حکام کے علاوہ وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن بھی موجود تھیں ۔ کلنٹن نے بھی کہا کہ واشنگٹن اور بیجنگ خطے میں قیام امن کے لئے مشترکہ مؤقف رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’ شمالی کوریا کے طرف سے بحری جہاز تباہ کرنے کے جارحانہ عمل کے بعد پیدا ہونے والی بحرانی صورتحال کو درست کرنا ہو گا۔‘‘
دوسری طرف روسی صدر نے اپنے جنوبی کوریائی ہم منصب سے ملاقات کے بعد زور دیا ہے کہ جزیرہ نما کوریا میں جنگ نہیں ہونی چاہئے۔ میدویدف نے کہا کہ اطراف اس معاملے کو مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کریں۔
خیال رہے کہ شمالی اور جنوبی کوریا کے مابین سمندری حدود پر تنازعات پائے جاتے ہیں اور اس وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان متعدد بارسمندری جھڑپیں بھی ہوئیں ہیں۔
رپورٹ : عاطف بلوچ
ادارت : عاطف توقیر