جنوبی کوریا جنگ کی طرف لے جا رہا ہے: شمالی کوریا
21 مئی 2010جمعرات کے روز جنوبی کوریا نے کہا تھا کہ سیول کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں، جو یہ واضح کرتے ہیں کہ رواں برس مارچ میں دونوں ملکوں کی متنازعہ سمندری حدود میں جنوبی کوریائی بحریہ کا تباہ ہونے والا جہاز شمالی کوریا کے تارپیڈو حملے کا نشانہ بنا تھا۔ اس واقعے میں جنوبی کوریا کی بحری فوج کے 46 اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
جنوبی کوریا کے صدر لی میونگ باک نے آج ملکی نیشنل سیکیورٹی کونسل کی میٹنگ طلب کر لی ہے۔ یہ فیصلہ اس واقعے سے متعلق بین الاقوامی تفتیش کاروں کی رپورٹ کے اجراء کے بعد کیا گیا ہے۔ جنوبی کوریا میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کا یہ اجلاس شاذ و نادر ہی طلب کیا جاتا ہے۔ اس اجلاس میں یہ طے کیا جائے گا کہ شمالی کوریا کی جانب سے اس مبینہ حملے کے بعد پیونگ یانگ کے خلاف کس سطح کی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ ڈھائی برس سے جنوبی کوریا پر حکومت کرنے والے صدر لی میونگ باک کا دورِ حکومت دونوں کوریائی ریاستوں کے درمیان تعلقات میں سرد مہری میں اضافے کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔
شمالی کوریا کی کوریائی ریاستوں کے امن و اتحاد کی کمیٹی نارتھ کمیٹی فار دی پیس فُل ری یونیفیکیشن آف دی فادر لینڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ دونوں ریاستوں کے درمیان اس وقت جنگ کی سی صورتحال ہے اور ایسے موقع پر کسی بھی قدم کا جواب اسی شدت سے دیا جائے گا۔
’’اگر جنوبی کوریا کا کٹھ پتلی گروپ کوئی قدم اٹھا کر جنگ کا ماحول پیدا کرتا ہے، تو اس کو بھرپور قوت سے جواب دیا جائے گا اور اس میں شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان تمام تر معاہدوں کا خاتمہ اور باہمی تعاون کے تمام منصوبوں کی بندش بھی شامل ہے۔‘‘
دوسری جانب بین الاقوامی تفتیش کاروں کی ایک رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد امریکی محکمہء خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس قدم پر شمالی کوریا کو سزا دی جائے گی۔ محکمہء خارجہ کے مطابق یہ واضح طور پر شمالی کوریا کا اشتعال انگیز قدم تھا اور اس کے لئے اسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔
امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور سویڈن سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی تفتیش کاروں نے اپنی رپورٹ میں الزام عائد کیا تھا کہ مارچ کے مہینے میں جنوبی کوریا کا ڈوبنے والا بحری جہاز شمالی کوریا کی طرف سے داغے گئے تارپیڈو کا نشانہ بنا تھا۔ شمالی کوریا نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔
رپورٹ: عاطف توقیر / خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی