عوام کی بڑی تعداد بلکہ غالب اکثریت آئین کا اتنا ہی تعارف رکھتے ہیں کہ خبروں میں آتا ہے آئین کی خلاف ورزی ہوئی، آئین سے کھیلا گیا، آئین سے چھیڑ چھاڑ ہوئی، آئین کی موشگافیاں سامنے آئیں یا پھر آئینی ترمیم ہو گئی۔ انتہائی ذمہ داری سے کہہ سکتی ہوں کہ پاکستان میں قانون دانوں، وکالت کے پیشے سے وابستہ چندافراد، قانون و انصاف کے طالبعلموں، بعض بیوروکریٹس، عدالتوں کی کوریج کرنے والے چند ایک صحافیوں اور گنتی کے سیاستدانوں کے سوا کوئی آئین پاکستان سے رجوع نہیں کرتا۔
’تہتر کے آئین کے مطابق‘ یہ الفاظ ہم مولانا فضل الرحمان کے اس ڈمی کریکٹر کے منہ سے ازراہ ِ مذاق سنتے ہیں، جو نیوز چینلز کے پرائم ٹائم شوز میں نقلی داڑھی لگا کر بٹھایا جاتا ہے۔ ماضی کی ڈکٹیٹرشپ کی کہانیوں میں سنتے ہیں آئین معطل ہوا تھا۔ تازہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف پہ سنگین غداری کا مقدمہ چلا تو آئین شکنی بھی لگ بھگ روز میڈیا میں موضوع بحث رہی، یوں آئین شکنی کے لفظوں سے بھی کان مانوس ہوئے۔
آئین کا بول بالا ایک اور جگہ بھی ہوتا ہے، جسے ہم عدلیہ کہتے ہیں۔'ہم نے آئین کی بالادستی کا عزم کر رکھا ہے‘ عدالتوں میں گونجتا یہ افسانوی فقرہ وہ سائل بھی سنتا ہے، جس کا مقدمہ چلتے پچیس برس گزر گئے۔
سپریم کورٹ کو آئین کا جی ایچ کیو مانا جاتا ہے، عوام اسے آئین و قانون کا استعارہ سمجھتے ہیں۔ اس کی عمارت میں لگی سنگ ِ مر مر کی سفید دیواروں پہ جو سیاہ دھبے نظر آتے ہیں، یہ آئین کو سمجھوتے اور نظریہ ضرورت سے داغدار کرنے کا عکس ہیں لیکن آئین کی حفاظت کا دعویٰ ہنوز قائم ہے۔
’آئین کی کچھ شقوں کی ٹھیکیداری مذہبی جماعتوں نے لے رکھی ہے، آئین، جیسے ان کی بغل میں دبا ادھ موا مرغا ہوتا ہے، جس کی مخصوص شقوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے ان پریشر گروپس کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ ایک یہ تعارف بھی ہے آئین کا۔
آئین کا تعارف پارلیمان سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ یہاں اسے کبھی موم کی ناک بنا کر، جیسے چاہے موڑنے کی سعی ہوتی ہے، کبھی اس کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں۔ ایوان بالا اور ایوان ِ زیریں میں جب کوئی آئین کو اٹل قرار دے رہا ہوتا ہے تو کوئی چند گز دور بیٹھا زیر لب مسکرا رہا ہوتا ہے۔
جس کے یہ چیدہ چیدہ تعارف ہیں، اسی آئین کے ساتھ تازہ واردات قومی اسمبلی میں تین اپریل کو ہوئی ہے، سابقہ حکومت نے آئین کو بُغدا بنا کر جمہوری عمل کی ہڈی بوٹی برابر کر دی، اسمبلی ٹوٹ گئی۔ اب آئین کی محافظ سپریم کورٹ کے ججز نے اسی آئین کو بحال کیا ہے۔
روٹی،کپڑا، مکان، علاج، تعلیم جیسے روزانہ کے مسائل میں الجھے لوگوں کے لیے یہ خاصا مشکل ہے کہ وہ آئین کی دو سو اسی دفعات پڑھیں، سمجھیں ، یاد رکھیں اور وقت پڑنے پہ اپنی بات میں ان کے حوالے دیں۔ آئین کے عدسے سے ملکی حالات کا جائزہ لینا اور انہیں سمجھنا ایک ناخواندہ یا نیم خواندہ کیا ایک پڑھے لکھے پاکستانی کے لیے بھی ناممکن ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کا دستور ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان ایک سماجی یا عمرانی معاہدہ ہوتا ہے، جہاں عوام ریاست کو قوانین کے ذریعے حکمرانی اور طاقت رکھنے کا اختیار دیتے ہیں۔ کمال ہے کہ عوام کو علم ہی نہیں کہ انہوں نے ریاست کے ساتھ کون سا معاہدہ کر رکھا ہے اس کے نکات کیا ہیں؟ کون سے حقوق انہیں ملنا ہیں، ریاست کا اختیار کیا ہے، شہری کو اس دستور یا آئین کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟ کچھ علم نہیں۔
یعنی ہم سب اجتماعی طور پر ایک معاہدے کے فریق اول ہیں مگر فریق دوم یعنی ریاست، حکومت اور اس کے ادارے کب اس معاہدے سے مُکر جاتے ہیں، وہ کب اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اور کب ہمارے اجتماعی بھروسے کو توڑتے ہیں، ہمیں اس کا علم نہیں، علم ہو بھی جائے تو ہمیں آئین شکنی کے جرم کی حساسیت کا احساس نہیں۔
جس آئین کا علم ہی نہیں کہ کیا شے ہے؟ اسے مشکل میں پھنسا دیکھ بھی لیں تو بچانے کے لیے ہم عوام سڑکوں پہ کیوں نکلیں گے ؟ میری دانست میں یہ سیاسی جماعتوں کے فائدے کی بات ہے کہ وہ عوام میں ان کے آئین، آئین کی پاسداری و عملداری کا شعور پیدا کریں۔ ضروری ہے کہ سیاستدان خود آئین کو پڑھیں اور سمجھیں۔ (اسے آئیڈیلزم ہی سمجھیں)
آئین سے واقفیت صرف قانون، سیاسیات، سماجیات یا صحافت پڑھنے والوں کے لیے ضروری نہیں۔ یونیورسٹی لیول کے طلباء و طالبات کو آئین کا تعارف ان طلباء یونینز سے مل سکتا ہے، جن پہ پابندی ہے۔
ناخواندہ افراد اگر پڑھ نہیں سکتے تو یہ مطلب نہیں کہ وہ قانون کی اہمیت سے نابلد ہیں۔ عورتیں اگر گھر میں بیٹھی ہیں تو یہ ہرگز تصور نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنے حقوق سے ہاتھ کھڑے کر چکیں۔ اپنے آئین کی آگہی ان کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ کسی عالم فاضل ووٹر کو ہے۔ انواع الاقسام کی غیر سرکاری تنظیمیں کردار ادا کر سکتی ہیں۔
موبائل فون پہ ایسی درجنوں ایپلی کیشنز ہیں، جہاں اردو اور انگریزی میں پاکستان کا آئین موجود ہے۔ محض گوگل سرچ کر لیں تو پورا آئین پی ڈی ایف فارمیٹ میں کھل جاتا ہے۔ لائبریریز ہمارے یہاں جاتا کوئی نہیں ورنہ وہاں بھی لازمی ایک نہ ایک کاپی رکھی ہو گی۔
ریاست عوام پہ فرائض کو بزور طاقت تھوپ ہی دیتی ہے لیکن اپنے حقوق، اپنا معاہدہ، اپنے آئین کو جاننا سراسر عوام کا کام ہے، اس کاغذ کے ٹکڑے کی اہمیت کا اندازہ ہو گا تو تب ہی عوام کسی کو اتنی آسانی سے آئین شکنی کرنے نہیں دیں گے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔