1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: سپریم کورٹ نے جسم فروشی کو بطور 'پیشہ‘ تسلیم کر لیا

صلاح الدین زین
26 مئی 2022

بھارتی سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں کہا ہے کہ بالغ اور مرضی سے جسم فروشی کرنے والوں کے خلاف مجرمانہ کارروائی ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ عدالت عظمٰی نے پولیس کو ہدایت دی ہے کہ وہ سیکس ورکرز کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آئیں۔

https://p.dw.com/p/4BtEM
Indien jügendliche Protituierte gerettet in Bombay
تصویر: imago/UIG

بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلے میں جسم فروشی کو بھی ایک 'پیشہ‘ تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسم فروشی کرنے والے بھی،''قانون کے تحت وقار اور مساوی تحفظ کے حقدار ہیں۔‘‘

عدالت نے اس سلسلے میں حکام کو کئی ہدایات جاری کی ہیں اور حکم دیا ہے کہ جو بھی بالغ  افراد اس پیشے سے وابستہ ہیں ان کے کام میں پولیس کو نہ تو کسی بیجا مداخلت کی اجازت ہونی چاہیے اور نہ ہی ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی مجرمانہ کارروائی ہونی چاہیے۔

سپریم کورٹ نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں پولیس فورسز  کے لیے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ سیکس ورکرز کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آئیں اور ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی بد زبانی یا جسمانی بدسلوکی نہ کریں۔

سیکس ورکرز کو بھی مساوی حقوق

عدالت نے کہا کہ ''یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ پیشے کو آپ مانتے ہیں یا نہیں، اس ملک میں ہر فرد کو آئین کی دفعہ 21 کے تحت با وقار زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ سیکس ورکرز بھی قانون کے تحت مساوی تحفظ کے حقدار ہیں۔‘‘

تین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی بینچ نے کہا کہ اس معاملے میں فوجداری قانون کا اطلاق تمام صورتوں میں 'عمر‘ اور 'رضامندی‘  کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ ججوں کا کہنا تھا،''جب یہ واضح ہو کہ جنسی کارکن ایک بالغ ہے اور رضامندی سے یہ کام کر رہا ہے، تو پھر  پولیس کو اس میں مداخلت کرنے یا اس کے خلاف کسی قسم کی مجرمانہ کارروائی کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔‘‘

عدالت نے کہا کہ اگر کوئی سیکس ورکر جنسی حملے کا شکار ہو جائے تو اسے بھی قانون کے تحت تحفظ فراہم کیا جائے اور فوری طور پر ایسے متاثرین کو طبی امداد سمیت تمام دیگر سہولیات بھی فراہم کی جانی چاہئیں۔

Indien Devadasi-System Prostitution
تصویر: Imago/ZumaPress

کورٹ نے کہا، ''دیکھا یہ گیا ہے کہ سیکس ورکرز کے ساتھ اکثر پولیس کا رویہ پر تشدد اور وحشیانہ ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک ایسا طبقہ ہے جس کے حقوق کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جسم فروشوں کے حقوق کے تئیں حساس ہونا چاہیے۔‘‘ مزید برآں ''آئین میں جو حقوق تمام شہریوں کے لیے ہیں، انہیں بھی ایسے تمام بنیادی انسانی حقوق اور دیگر حقوق حاصل ہونے چاہییں۔ پولیس کو تمام سیکس ورکرز کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور ان کے ساتھ زبانی اور جسمانی طور پر بدسلوکی نہیں کرنی چاہیے۔ انہیں تشدد کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے اور نہ ہی انہیں کسی جنسی سرگرمی پر مجبور کرنا چاہیے۔‘‘

جسم فروشی سے متعلق میڈیا کو ہدایات

عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ جسم فروش افراد کی پرائیویسی کا خیال رکھنے کے لیے حکومت کو خصوصی اصول و ضوابط وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے افراد کی گرفتاری، چھاپے اور امدادی کارروائیوں کے دوران شناخت ظاہر نہ ہونے پائے۔

عدالت کے مطابق اس طرح کے معاملات میں چاہے وہ متاثرہ شخص ہو یا پھر ملزم، ان کی تصاویر نہیں شائع کرنی چاہیے اور نہ ہی اسے نشر کرنا چاہیے تاکہ ان کی شناخت کو مخفی رکھا جا سکے۔

عدالت نے کہا کہ سیکس ورکرز کے بچوں کو محض اس بنیاد پر ان کی ماؤں سے جدا نہیں کیا جانا چاہیے کہ وہ جنسی کاروبار میں ملوث ہیں۔ عدالت نے   حکم دیا کہ ''جسم فروشوں کے بچوں کو بھی انسانی شرافت اور وقار کا بنیادی تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔‘‘

عدالت نے  کہا، ''اگر سیکس ورکر کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کا بیٹا/بیٹی ہے، تو اس کی تصدیق کے لیے ٹیسٹ کیے جا سکتے ہیں کہ آیا دعویٰ درست ہے یا نہیں، تاہم اگر یہ اس کا بچہ ہے، تو اس نابالغ کو زبردستی ماں سے الگ نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘

سیکس ورکرز کی فلاح و بہبود  کے لیے ایک ایک پینل تشکیل دیا گیا تھا، جس نے اپنی سفارشات پیش کی تھیں اور اسی کی بنیاد پر عدالت عظمٰی نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ ہدایات جاری کی ہیں۔ 

 عدالت عظمیٰ کو اس بات سے بھی آگاہ کیا گیا تھا کہ بھارتی حکومت نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ سیکس ورکرز بھی قانون کے مساوی تحفظ کی حقدار ہیں اور یہ کہ پولیس کو ان کے معاملات میں مداخلت یا ان کے خلاف مجرمانہ کارروائی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

بھارت ميں سیکس ورکرز قرضوں تلے دب گئے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید