1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جسم فروشی کو ’قانونی‘ بنا دیں : بھارتی سپریم کورٹ

10 دسمبر 2009

بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت سے پوچھا ہے کہ جسم فروشی کے کاروبارکو قانونی حیثیت کیوں نہیں دی جا سکتی۔ عدالت کے مطابق اس کاروبار کو روکنا ایک ناممکن عمل ہے۔

https://p.dw.com/p/KzPE
بھارت کی متعدد ریاستوں میں یہ ایک بڑا کاروبار بن چکا ہےتصویر: AP

جمعرات کے روز ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج صاحبان دالویر بھنڈاری اور اے کے پٹنائیک نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ جسم فروشی دنیا کے قدیم ترین پیشوں میں سے ایک ہے اور اسے روکنا ناممکن ہے تو اسے قانونی حیثیت دے دینے میں کیا عار ہو سکتی ہے۔ کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جسم فروشی کو قانونی تحفظ دے کے عورتوں کی سمگلنگ اور سیکس ورکرز کو ایک مرتبہ پھر معاشرتی دھارے میں شمولیت ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

Indien Prostitution Arztbesuch
عدالتی ریمارکس کے مطابق اس کاروبار کو قانونی بنانے سے سیکس ورکرز کو معاشرتی دھارے میں شامل ہونے کا موقع ملے گاتصویر: AP

بچوں کی سمکلنگ سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران بھارت کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے ججوں نے حکومتی وکیل گوپال شپرمانیم سے پوچھا کہ اس کاروبار کو قانونی حیثیت نہ دینے کی وجہ کیا ہے۔

’’اس طرح آپ اس کاروبار پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ ان افراد کو معاشرتی دھارے میں شامل کر سکتے ہیں۔ انہیں طبی سہولیات فراہم کر سکتے ہیں۔ سیکس ورکرز چھپ کر کاروبار کریں یا سامنے، دنیا بھر میں کون سی جگہ اس کاروبار سزا دینے کر روکا جا سکا ہے۔‘‘

گھوپال سپرمانیم کے مطابق حکومت سپریم کورٹ کی اس تجویز پر غور کرے گی۔

حالانکہ جسم فروشی کے کاروبار پر بھارت بھر میں پابندی ہے تاہم کئی ریاستوں میں غیرقانونی طور پر یہ ایک بڑا کاروبار بن چکا ہے۔ ایک حکومتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں تقریبا تیس لاکھ خواتین بطور سیکس ورکرز کام کر رہی ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کم عمر لڑکیاں ہیں۔ جبکہ ان میں سے تیس فیصد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ وہ بچیاں ہیں، جو اس کاروبار سے مجبورا وابستہ ہوئیں ہیں اور ان کی عمریں بارہ سے پندرہ برسوں کے درمیان کی ہیں۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : کشور مصطفیٰ