جسم فروشی کو ’قانونی‘ بنا دیں : بھارتی سپریم کورٹ
10 دسمبر 2009جمعرات کے روز ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج صاحبان دالویر بھنڈاری اور اے کے پٹنائیک نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ جسم فروشی دنیا کے قدیم ترین پیشوں میں سے ایک ہے اور اسے روکنا ناممکن ہے تو اسے قانونی حیثیت دے دینے میں کیا عار ہو سکتی ہے۔ کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جسم فروشی کو قانونی تحفظ دے کے عورتوں کی سمگلنگ اور سیکس ورکرز کو ایک مرتبہ پھر معاشرتی دھارے میں شمولیت ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
بچوں کی سمکلنگ سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران بھارت کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے ججوں نے حکومتی وکیل گوپال شپرمانیم سے پوچھا کہ اس کاروبار کو قانونی حیثیت نہ دینے کی وجہ کیا ہے۔
’’اس طرح آپ اس کاروبار پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ ان افراد کو معاشرتی دھارے میں شامل کر سکتے ہیں۔ انہیں طبی سہولیات فراہم کر سکتے ہیں۔ سیکس ورکرز چھپ کر کاروبار کریں یا سامنے، دنیا بھر میں کون سی جگہ اس کاروبار سزا دینے کر روکا جا سکا ہے۔‘‘
گھوپال سپرمانیم کے مطابق حکومت سپریم کورٹ کی اس تجویز پر غور کرے گی۔
حالانکہ جسم فروشی کے کاروبار پر بھارت بھر میں پابندی ہے تاہم کئی ریاستوں میں غیرقانونی طور پر یہ ایک بڑا کاروبار بن چکا ہے۔ ایک حکومتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں تقریبا تیس لاکھ خواتین بطور سیکس ورکرز کام کر رہی ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کم عمر لڑکیاں ہیں۔ جبکہ ان میں سے تیس فیصد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ وہ بچیاں ہیں، جو اس کاروبار سے مجبورا وابستہ ہوئیں ہیں اور ان کی عمریں بارہ سے پندرہ برسوں کے درمیان کی ہیں۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : کشور مصطفیٰ