1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'جسم پر کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں تشدد کے نشانات نہ ہوں‘

3 جنوری 2020

بھارتی ریاست بہار کے شہر پٹنہ میں گيارہ دن سے لاپتہ ایک نوجوان کی لاش مل گئی ہے۔ مقامی پولیس نے قتل کے شبے پر ہندو تنظیموں سے وابستہ چند افراد کو حراست ميں لے ليا ہے۔

https://p.dw.com/p/3VgXs
Indien Demonstranten Protest
تصویر: Reuters/A. Abidi

’’اس کے جسم پر کوئی ایسی جگہ نہیں بچی تھی جہاں چاقو اور چھرے کے نشان نہ ہوں۔ بہت بے دردری سے مارا گيا، ایسا سلوک تو جانور بھی انسانوں کے ساتھ نہیں کرتے ہیں۔‘‘ یہ الفاظ عامر حنظلہ کے بھائی ساحل کے ہیں، جو بہار کے دارالحکومت پٹنہ کے علاقے پھلواری شریف میں رہتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے مقتول کے بھائی ساحل نے بتایا کہ سنگت گلی میں زخمی ہونے والا ایک اور بچہ بھی ہسپتال میں زندگی و موت کی کشمکش ميں مبتلاء ہے۔

ساحل کا دعویٰ ہے کہ مقتول تيئس سالہ عامر عام دنوں کی طرح اس روز بھی تیار ہو کر کام کے لیے نکلا تھا تاہم شہر ميں شہریت ترمیمی ايکٹ کی مخالفت ميں مظاہرے اور ریلیاں جاری تھے اور اسی وجہ سے وہ ورکشاپ بند تھا، جہاں عامر ملازمت کرتا تھا۔ يوں عامر بھی ریلی میں شريک ہو گيا۔ ساحل کے مطابق، ’’اس نے بھارت کا پرچم اپنے ہاتھوں میں اٹھا رکھا تھا لیکن پھر مظاہرین پر پتھراؤ اور فائرنگ ہونے لگی اور وہاں سے فرار ہونے کی کوشش ميں عامر ہندؤں کے ایک ’سنگت‘ نامی محلے میں چلا گيا۔‘‘ ساحل دعویٰ کرتا ہے کہ وہیں عامر کو پکڑ کر قتل کر دیا گيا۔‘‘

بھارت ميں حال ہی ميں منظور ہونے والے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف بہار ميں اکيس دسمبر کو احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ اس دوران پٹنہ کے علاقے پھلواری شریف میں پر تشدد واقعات پیش آئے، جن میں تقریباً ایک درجن افراد زخمی ہو گئے تھے۔ عامر حنظلہ اسی تشدد کے بعد سے لاپتہ تھے۔ اہل خانہ نے بائیس دسمبر کو مقامی پولیس تھانے میں عامر کے لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر درج کرائی۔ اکتیس دسمبر کو پولیس نے عامر کی لاش ایک نالے سے بر آمد کی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ ميں يہ کہا گيا کہ عامر کو قتل کيا گيا۔ اس کے جسم پر چوٹوں کے گہرے نشانات تھے اور بعض حصوں پر چاقو سے بھی حملہ کیا گيا تھا۔ قبل ازيں پولیس نے عامر کے قتل ميں ملوث ہونے کے شبے پر دیپک کمار نونیا نامی ایک نوجوان کو گرفتار کیا تھا اور اسی نے پولیس کو عامر کی لاش کا پتہ بتایا۔

پھلواری شریف تھانے کے انچارج رفیق الرحمن نے میڈيا سے بات چيت میں کہا، ''ونود کمار نامی ایک شخص عامر کے قتل کا مرکزی ملزم ہے۔ وہ ابھی تک مفرور ہے۔ باقی تمام ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ چیتو نامی ايک ملزم کے گھر سے عامر حنظلہ کا موبائل برآمد کر لیا گیا ہے۔ قتل کے بعد عامر کی لاش کو جس ٹھیلے پر لاد کر گڑھے تک لے جایا گيا، وہ ٹھیلہ بھی ونود کمار کے گھر کے سامنے سے برآمد ہوا ہے۔‘‘

پولیس کے مطابق اس واردات کے تمام ملزمان نوجوان ہیں اور ان میں سے بیشتر کا تعلق بجرنگ دل، آر ایس ایس، ہندو پتر اور ہندو سماج سنگٹھن جیسی سخت گیر ہندو تنظیموں سے ہے۔ پولیس افسر رفیق الرحمان نے بتايا کہ ابتدائی تفتيش سے پتہ چلا ہے کہ مظاہرے کے دوران جب پولیس نے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا، تو عامر حنظلہ سنگت گلی میں چلا گيا اور وہیں اس کا قتل ہوا۔

عامر کے والد سہیل احمد کا دعوی ہے کہ ابتدا میں پولیس نے اس کیس پر زيادہ توجہ نہ دی اور اسی لیے لاش دس دن بعد ملی۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چيت میں انہوں نے خدشہ ظاہر کيا کہ شايد پولیس اس معاملے کو نظر انداز کر دينا چاہتی تھی۔ ''ہمارا مطالبہ ہے انصاف کا ہے، جو انصاف کے تقاضے ہیں، وہ پورے کیے جائیں۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں سہيل احمد نے کہا، ''لوگوں کے ذہنوں میں نفرت کا زہر گھولا جا رہا ہے، اس طرح کے تشدد کی اور کوئی وجہ نہیں ہے۔ ایسی نفرت کہ ایک معصوم بچے کو، جس نے کبھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑا، اتنی بے رحمی سے مار دیا گيا۔ لوگوں میں اس طرح کا زہر بھرا گيا ہے، تبھی تو ایسا ہو رہا ہے۔‘‘

سہیل احمد نے مزيد کہا واقعے کے بعد سے پھلواری شریف میں حالات کافی کشیدہ ہیں لیکن علاقے کے افراد امن و امان چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کيس کی تفتيش اور انصاف کے مطالبات ميں ہندؤں کا بھی ایک گروپ ان کے ساتھ ہے۔ سہیل احمد کے چھ بچے ہيں اور وہ خود بے روزگار ہیں۔ غربت کے سبب ہی اٹھارہ برس کی عمر میں عامر حنظلہ نے تعلیم ترک کر کے والد کی مدد کا فیصلہ کیا اور بیگ بنانے والی ایک فیکٹری میں ملازمت شروع کی۔ تین چھوٹے بھائی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اب کمانے والا کوئی نہیں ہے۔ اس خاندان کے لوگ اس بات سے بھی ناراض ہیں کہ نوجوان بیٹے کے قتل پر تعزيت کے ليے کوئی سیاسی رہنما ان کے پاس نہیں آيا۔

بھارت میں شہریت سے متعلق نئے متنازعہ قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں اب تک پچیس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بیشتر ہلاکتیں ریاست اتر پردیش میں مبينہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائيوں ميں ہوئيں۔

بھارت میں پاکستانی ہندوؤں نے نئی شہریت بل کا خیرمقدم کر دیا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں