جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق رہنما غلام اعظم کو 90 برس قید
15 جولائی 2013رواں برس جنوری کے بعد سے بنگلہ دیشی حکومت کے بنائے گئے ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل‘ کی طرف سے جنگی جرائم کے الزامات کے تحت یہ پانچویں سزا سنائی گئی ہے۔ قبل ازیں جماعت اسلامی کے تین رہنماؤں کو سزائے موت اور ایک کو عمر قید کی سزا سنا چکی ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے حامیوں کی طرف سے مظاہرے بھی جاری ہیں۔ عدالت کی طرف سے حتمی فیصلہ سنائے جانے سے قبل ہی اتوار کے روز ڈھاکا میں جماعت اسلامی کے حامیوں نے مختلف مظاہروں کا اہتمام کیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ اس دوران یہ مظاہرے پر تشدد رنگ اختیار کر گئے اور مظاہرین اور پولیس کے مابین تصادم بھی ہوا۔ پولیس کے مطابق جماعت اسلامی کے حامی چالیس افراد نے ایک پولیس وین پر حملہ کیا اور دیسی ساختہ بم پھینکے۔ نائب پولیس کمشنر سیف الرحمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس دوران پتھراؤ کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار شدید زخمی بھی ہو گیا۔
بنگلہ دیش میں حکومت کی طرف سے قائم کردہ جنگی جرائم کی متنازعہ خصوصی عدالت کی طرف سے ماضی میں سنائے جانے والے فیصلوں کے بعد شدید نوعیت کے ہنگاموں کا آغاز ہو گیا تھا۔ اسلام پسند مظاہرین کے بقول 90 سالہ غلام اعظم پر عائد الزامات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران جماعت اسلامی کے سربراہ غلام اعظم ہی تھے۔ حکومت کے بقول اس دوران لاکھوں افراد ہلاک کر دیے گئے تھے۔
بنگلہ دیش کی سیکولر حکومت کی طرف سے 2010ء میں بین الاقوامی کرائمز ٹریبیونل قائم کیا گیا تھا۔ یہ خصوصی ٹریبیونل پہلے بھی جماعت اسلامی کے چار رہنماؤں کے خلاف فیصلے سنا چکا ہے، جن میں سے تین کو سزائے موت جبکہ ایک کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ پراسیکیوٹر سلطان محمود نے فرانسیسی نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ آج پیر کو یہ ٹریبیونل غلام اعظم کے خلاف مقدمے میں حتمی فیصلہ سنا دے گا۔
بنگلہ دیش میں ریاستی دفتر استغاثہ نے غلام اعظم کا موازنہ نازی جرمنی کے اڈولف ہٹلر سے کرتے ہوئے ان کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ ان کے بقول ملزم نے جنگی جرائم کے مرتکب دیگر افراد کی رہنمائی کی تھی۔
ٹریبونل پر اعتراضات
بنگلہ دیش کی سب سے بڑی مذہبی پارٹی جماعت اسلامی اور اپوزیشن کے اہم رہنماؤں نے پیر کے دن ملک گیر ہڑتال کی کال دے رکھی تھی۔ اپوزیشن کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر سرگرم انسانی حقوق کے متعدد ادارے بھی بنگلہ دیش کے اس جنگی ٹریبیونل کی ’منصفانہ اور غیر جانبدارانہ‘ حیثیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس عدالت میں جن ملزمان کے خلاف مقدمے چلائے جا رہے ہیں، ان کا تعلق یا تو جماعت اسلامی سے ہے یا پھر اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بی این پی سے۔
غلام اعظم اس وقت سیاسی طور پر سرگرم نہیں ہیں لیکن وہ بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے روحانی رہنما تصور کیے جاتے ہیں۔ ان پر جرائم کی منصوبہ بندی، سازش، جرائم پر اکسانے، قتل اور اذیت رسانی جیسے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ سلطان محمود کے بقول اعظم پر مجموعی طور پر 61 الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ملزم کے وکیل تاج الاسلام کے بقول استغاثہ ان کے مؤکل کے خلاف کوئی بھی الزام ثابت کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔
اس متنازعہ ٹریبیونل کی طرف سے ماضی میں سنائی جانے والی سزاؤں کے خلاف عوامی سطح پر شروع ہونے والے پر تشدد مظاہروں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 150 بتائی جاتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق آج کے دن بالخصوص ڈھاکا میں سکیورٹی کا سخت انتظام کیا گیا ہے۔ اس خصوصی عدالت میں مجموعی طور پر بارہ ملزمان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، جن میں سے دو کا تعلق بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی BNP سے ہے جبکہ باقی کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے یا رہ چکا ہے۔ ان بارہ میں سے چار ملزمان پر عائد الزامات درست ثابت ہو جانے پر انہیں سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔