جماعتِ اسلامی کے رہنما کے لیے سزائے موت پر احتجاج
18 ستمبر 2013پولیس کا کہنا ہے کہ دارالحکومت ڈھاکہ میں سکیورٹی انتہائی سخت ہے۔ پولیس اور پیرا ملٹری بارڈر گارڈز سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق ڈھاکہ کے ایک نواحی علاقے میں ایک مظاہرے کے دوران جماعت اسلامی کے حامیوں کی جانب سے پتھراؤ کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک ہو گیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مرنے والا ایک رکشا ڈرائیور تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اسے کئی پتھر لگے۔ ساحلی ضلعے نواکھلی کے پولیس سربراہ انیس الرحمان کا کہنا ہے کہ اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ دیگر علاقوں میں بھی مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ مظاہرین نے پولیس پر اینٹوں سے حملہ کیا جبکہ پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے ربر کی گولیاں اور آنسو گیس کے شیل استعمال کیے۔
بدھ کو بنگلہ دیش کے شمال مغربی شہر راج شاہی میں بھی پولیس نے جماعت اسلامی کے مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربر کی گولیاں اور آنسو گیس کے شیل استعمال کیے۔
نجی ٹی وی چینل ٹوئنٹی فور کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈھاکہ اور جنوب مشرقی شہر کُھلنا میں مظاہرین نے پولیس پر دیسی ساختہ چھوٹے بم بھی پھینکے۔
بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے منگل کو جماعت اسلامی کے ایک اعلیٰ رہنما عبدالقادر ملا کے لیے دی گئی عمر قید کی سزا کو تبدیل کر کے سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ان پر پاکستان کے خلاف 1971ء کی جنگِ آزادی کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب ثابت ہوا تھا۔
پینسٹھ سالہ عبدالقادر ملا جماعت اسلامی کے چوتھے نمبر کے رہنما ہیں۔ فروری میں انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل نے ان کے لیے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ اس وقت بھی بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں نے پرتشدد مظاہرے شروع کر دیے تھے۔ سیکیولر حلقوں نے اس سزا کو نرم قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
یہ ٹربیونل جنوری سے اب تک 1971ء کی جنگ سے متعلقہ جرائم کے حوالے سے چھ اسلام پسندوں کا سزا سنا چکا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت پاکستان سے علیحدگی کے خواہاں فائٹرز نے پاکستانی فورسز سے لڑائی کی تھی جنہیں مقامی مذہبی رہنماؤں کی حمایت حاصل تھی۔