جموں و کشمیر میں نئے ڈومیسائل ضابطے نافذ
1 اپریل 2020بھارت میں کورونا وبا کے بحران کے درمیان جموں و کشمیر کے حوالے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مودی حکو مت کے اس تازہ ترین اقدام کی کشمیر کی متعدد سیاسی جماعتوں نے نکتہ چینی کی ہے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے جاری گزٹ نوٹیفکیشن میں جموں و کشمیر کے ڈومیسائل (رہائشی) کی نئی تعریف مقرر کی گئی ہے اور ملازمت کے لیے کچھ نئے ضابطے بھی شامل کیے گئے ہیں۔
نوٹیفکیشن کے مطابق جو بھی شخص جموں و کشمیر میں پندرہ برس تک رہائش پذیر رہا ہویا جس نے وہاں سات برس تک تعلیم حاصل کی ہو اور دسویں اوربارہویں جماعت کے امتحانات وہیں کے کسی ادارہ سے دیا ہو وہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا حقدار ہوگا۔ ایسا شخص سرکاری ملازمتوں کا اہل اور غیرمنقولہ جائیداد کا مالک بھی بن سکتا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ بی جے پی حکومت نے گزشتہ برس پانچ اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دینے والی دفعہ 370کے ساتھ ساتھ دفعہ 35اے کو بھی ختم کردیا تھا جس کے تحت یہ طے ہوتا تھا کہ کون شخص ریاست کا رہائشی ہے۔ ملازمت اور جائیداد کی ملکیت کے فیصلے بھی اسی دفعہ کے تحت ہوتے تھے۔مودی حکومت نے اسی کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقو ں ’جموں و کشمیر‘ اور’لداخ‘ میں تقسیم کردیا تھا۔
ڈومیسائل کے حوالے سے آج جاری نوٹیفکیشن کے تحت جموں و کشمیر کے رہائشیوں میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جو جموں و کشمیر میں مرکزی حکومت کے اہلکار، پبلک سیکٹر انڈر ٹیکنگ کے اہلکار، سرکاری سیکٹر کے بینکوں کے اہلکار، سینٹر ل یونیورسٹیوں کے اہلکار اور مرکزی حکومت کے تحقیقی اداروں کے اہلکار کے طور پر دس برس تک خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ایسے اہلکاروں کے بچے بھی رہائشیوں کے زمرے میں شامل کیے جائیں گے۔
نوٹیفیکشن کے مطابق ایسے افراد کو بھی جموں و کشمیر کا ڈومیسائل قرار دیا جائے گا جنہیں راحت اور بازآبادکاری کمشنرنے ریاست میں ’شرنارتھی‘ یا’غیرمقیم رہائشی‘ کا درجہ دیا ہو۔ نئے ضابطوں کے تحت اب تحصیل دار ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا مجاز افسر ہوگا۔ پہلے یہ کام ریاست کی طرف سے نامزد ڈپٹی کمشنر کرتا تھا۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر سے متعلق انتیس قوانین منسوخ کردیے گئے اور 109قوانین میں ترمیم کی گئی ہے۔
یہ نوٹیفکیشن بظاہر ایک انتظامی معاملہ ہے لیکن خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کیے جانے کے بعد یہ جموں و کشمیر کے حوالے سے اٹھایا جانے والا سب سے بڑا قدم قرار دیا جارہا ہے۔ اس کے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔کشمیر کی متعدد سیاسی جماعتوں نے اس نئے نوٹیفکیشن کی سخت نکتہ چینی کی ہے۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایک ٹوئٹ میں کہا ”جب ہماری کوششیں اور توجہ کورونا وائرس سے نمٹنے پر مرکوز ہونی چاہیے تھی حکومت نے جموں وکشمیر میں نیا ڈومیسائل قانون نافذ کردیا۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس قانون سے کوئی بھی وعدہ پورا نہیں ہوتا ہے تو زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔“ انہوں نے سابق وزیر الطاف بخاری کی پارٹی کا نام لئے بغیر کہا ”آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ڈومیسائل قانون اتنا کھوکھلا ہے کہ دلی کے آشیرواد سے وجود میں آنے والی نئی جماعت، جس کے لیڈران اس قانون کے لئے دہلی میں لابنگ کررہے تھے، کو نئے ڈومیسائل قانون کے خلاف بیان دینے پر مجبور ہونا پڑا۔“
جموں وکشمیر اپنی پارٹی کے صدر الطاف بخاری نے اس نوٹیفیکیشن کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ”یہ حکمنامہ ایسے وقت جاری کیا گیا ہے جب پورا ملک اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہے اور کورونا وائرس کے پیش نظر ملک بھر میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ ہے۔“ انہوں نے کہا کہ یہ نوٹیفکیشن وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے ان وعدوں کے بالکل برعکس ہے جو انہوں نے پارلیمان میں کیے تھے۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے ڈو میسائل قانون کو غیر معقول اور لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ جموں وکشمیر پیپلز کانفرنس نے اس قانون کو تضحیک آمیز قرار دیا۔
نئے قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلی کو مفت قیام گاہ سمیت ملنے والی دیگر مراعات بھی ختم کردی گئیں۔
جاوید اختر، نئی دہلی