1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنت کی چڑیاں شادی میں آئیں گی؟

5 اپریل 2024

آپ کی شادی میں جنت کی چڑیاں تو آئیں گی نا؟ سوال کرنے والے نے جس قدر مضحکہ خیز انداز میں پوچھا تھا میں چند لمحے تک تو سمجھ ہی نہیں پائی کہ جنت کی چڑیوں سے کیا مراد ہے۔

https://p.dw.com/p/4eTfZ
DW-Urdu Bloggerin Shumaila Husssian
تصویر: Privat

لیکن جب وضاحت طلب کرنے پر بتایا گیا کہ یہ نام ہمارے گھروں میں ٹرانس جینڈرز کو دیا جاتا ہے۔ تو میں بھی ماضی میں جا نکلی جہاں ہمارے گھر  آنے والی ایک آپا جی کی مردانہ آواز اور عجیب سے انداز کو ہم چھوٹے چھوٹے بچے کونوں کھدروں میں چھپ چھپ کر دیکھتے اور ہنسی سے بے حال ہوئے جاتے۔
ایسے میں نانی امی کا ہمیں گھرکنا اور ساتھ کہنا کہ یہ اللہ لوک ہوتے ہیں، جنت کی چڑیاں ہیں یہ ان کا احترام کیا کرو، ان سے سر پر ہاتھ رکھوایا کرو اور دعا لیا کرو کیونکہ ان کے منہ سے نکلی دعا خدا کبھی نہیں موڑتا اور ساتھ یہ تاکید بھی کرتیں کہ انہیں ستائیں تو اللہ تعالی ناراض ہو جاتے ہیں اور جنت میں داخلہ بند کر دیتے ہیں اس لیے انہیں پریشان نہیں کرنا۔
ان باتوں کا ایسا خوف دل و دماغ میں بیٹھ جاتا کہ ہم ان آپا جی کے آنے پر فرداً فرداً انہیں سلام کرنے پہنچ جاتے۔
آپا جی کا حلیہ بھی بہت شاندار ہوتا تھا۔ سادہ شلوار قمیض، سر پر سلیقے سے جمایا ہوا دوپٹہ اور کسی بھی قسم کے مصنوعی میک اپ سے عاری دھلا ہوا سادہ سا چہرہ۔ وہ ہمارے گھر کے دروازے پر آکر آواز لگاتیں 'جتھ پیر دھراں، مٹھے چول دھراں' یعنی جہاں پیر رکھوں وہاں میٹھے چاول پکیں۔
یہ ایک طرح سے رزق میں اضافے کی دعا ہوتی۔ اس صدا سے ہمیں اندازہ ہو جاتا کہ آپا آئی ہیں اور وہ گھر میں داخل ہوا چاہتی ہیں۔
لہٰذا تمام عورتیں اور بچیاں اپنے سر ڈھانپ لیں۔ ایسے میں اگر کوئی نوجوان لڑکی اپنے دوپٹے سے غافل ہوتی تو آپا جی انہیں نصیحت کرتیں۔
وہ ہمیشہ نماز، روزے اور پردے کی تلقین کرتیں، اپنے حصے کے دانے، آٹا یا پیسے لیتیں اور کچھ دیر بیٹھ کر چلی جاتیں۔
ان کے وجود سے محبت اور گداز کا جو تاثر ابھرتا تھا اس نے ہمیں نانی اماں کی اس بات پر یقین کرنے پر مجبور کردیا کہ وہ واقعی جنت کی چڑیا ہی ہوں گی۔
اس کے بعد سے لے کر آج تک ہم کبھی کسی ٹرانس جیندر فرد کے بارے میں گناہ ثواب کے معاملات سوچ ہی نہیں پائے۔
کبھی ہمیں ایسے نہیں لگا کہ یہ ہم سے الگ ہیں یا ان کا مذاق بھی اڑایا جا سکتا ہے۔ یہ ہی وجہ تھی کہ اسلام آباد میں قیام کے دوران جب ایک روز میں نے فیس بک پر "خواجہ سرا" آئی ڈی سے ایک پوسٹ دیکھی کہ وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں دھکے کھا رہی ہیں اور انہیں مردانہ اور زنانہ دونوں ہاسٹلز میں سے کوئی بھی رہائش دینے کو تیار نہیں تو میرا دل بھر آیا اور فوراً ان باکس میں میسج کیا کہ آپ وہاں کس کام سے آئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ ایم فل اردو کی اسٹوڈنٹ ہیں اور تھیسس جمع کروانے آئی ہیں۔ یہ سنتے ہی میں نے انہیں اپنے ہاں آنے اور ٹھہرنے کی دعوت دی۔
انہوں نے میری دعوت کو مہربانی فرما کر قبول کیا اور میرے پاس ٹھہرنے آ گئیں۔
یہ میری زندگی میں بچپن کے بعد پہلی بار کسی ٹرانس جینڈر سے براہ راست ملاقات کا موقع تھا۔ وہ بھی اس قدر پڑھی لکھی شخصیت اور دونوں کا مضمون بھی ایک جیسا نکل آیا تو دوستی اور بہناپے کی جو بنیاد پڑی وہ ایک اور سنگ میل ثابت ہوئی۔
ہوا کچھ یوں کہ پی پی ایس سی نے مختلف مضامین میں لیکچرار بھرتی کرنے کا اشتہار دے رکھا تھا اور میری ایک اسٹوڈنٹ کم دوست میرے پاس بیٹھ کر اس پر آن لائن اپلائی کر رہی تھی۔
کہ اچانک ہمیں خیال آیا کہ فیضی بھی تو اپلائی کر سکتی ہیں وہ کیوں نہیں کرتیں۔ (فیضی انہی کا نک نیم ہے اصل نام فیاض اللہ ہے)
اس پر فیضی نے کہا کہ سیٹس یا تو مردوں کے لیے ہیں یا صرف عورتوں کے لیے اس میں ٹرانس جینڈرز کا آپشن ہی نہیں ہے۔
یہ بہت تکلیف دہ حقیقت تھی لیکن چند ایک دوستوں کے مشورے سے ہم نے فیضی کی لیکچرر شپ کے لیے عورتوں کے ضمن میں اپلائی کر دیا۔
اس کے بعد فیضی تو واپس چلی گئیں لیکن کچھ روز بعد پی پی ایس سی کی طرف سے ایک ای میل آئی جس میں فیضی کی درخواست کو ریجیکٹ کر دیا گیا تھا اور فیضی اس بات کو لے کر بہت پریشان ہوئیں بلکہ غم زدہ ہوئیں۔
انہوں نے مجھ سے گلہ کیا کہ تمہاری وجہ سے میں آج بہت دکھی ہوئی ہوں جبکہ میں اس بات پر خوش تھی کہ ہمیں باقاعدہ ریجیکشن لیٹر چاہیے تھا تا کہ ہم کورٹ تک جا سکیں۔
اور پھر اس سفر میں بہت سے لوگ شامل ہوئے۔ فیضی کو ہمت ہوئی اور اس نے ایک مایہ ناز وکیل اور ہیومین رائٹس ایکٹوسٹ کے ذریعے یہ مقدمہ لڑا۔ وہ جیت گئیں اور اب جتنی بھی لیکچرارز کی سیٹیں آتی ہیں ان میں مرد، عورت اور ٹرانس جینڈرز سب اپلائی کر سکتے ہیں۔
لیکن تا حال ان کا کوٹا مختص نہیں کیا گیا۔ اس کے پیچھے ایک بہت ہی خالص قانونی نکتہ ہے جس کے بارے میں آئندہ کسی تحریر میں بات کریں گے۔
ابھی تو صرف اتنا کہ آپا جی اور فیضی جیسے بہت سے اور ٹرانس جینڈر انسانیت کے لیے جس طرح کام کر رہے ہیں ہمارے لیے تو اصل ہیرو یہ ہیں۔
وہ سوال کرنے والے کو تو اندازہ نہیں تھا کہ میرے لیے فیضی اور میری کسی بھی سگی بہن اور بھائی میں کوئی فرق نہیں ہے لہٰذا میری شادی سے لے کر جنازے تک یہ جنت کی چڑیاں شامل ہوں گی۔
ناچنے اور بین کرنے کے لیے نہیں بلکہ میرے سگے رشتوں کے برابر باعزت طور پر خوشیاں منانے کے لیے بھی اور جنازے کو کندھا دینے کے لیے بھی۔