1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنسی تعلیم کو نصاب میں شامل کرنا کیوں ضروری ہے؟

4 جنوری 2023

سیکس ایجوکیشن کی کمی جنسی زیادتی، میریٹل ریپ اور جنسی بیماریوں کے پھیلاؤ جیسے مسائل کو جم دیتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4Limn
 DW Urdu Blogerin Shagufta Kanwal
تصویر: privat

پاکستان جیسے جنسی طور پر گھٹن زدہ معاشرے میں جہاں بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی اور جنسی تشدد کے واقعات معمول کی بات ہیں وہیں اس معاشرے کی منافقت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہم سیکس جیسے اہم ترین موضوع پر اپنے بچوں سے بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہاں ہر چھوٹے بڑے شہر کی دیواروں پر آپ کو مردانہ کمزوری اور بانجھ پن کے علاج کے اشتہارات تو نظر آئیں گے مگر سیکس کے بارے میں ایک صحت مند انداز میں گفتگو کرنا معیوب اور نامناسب خیال کیا جائے گا۔ یہاں ایک دوسرے کو بات بات پر دی جانے والی گالیاں تو خواتین کے جنسی اعضاء سے متعلق ہو سکتی ہیں مگر سیکس ایجوکیشن دے کر معاشرتی بے راہ روی کو روکنے کے لیے قدم اٹھانے کو کوئی تیار نہیں۔

 اخبارات میں آئے روز چھپنے والے زیادتی کے واقعات محض چند دن کے لیے ہمارے ضمیر کو جگاتے ہیں جو کہ پھر گھوڑے بیچ کر سو جاتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ آج کے دور میں جہاں انٹرنیٹ اور میڈیا نے بچوں کو وقت سے پہلے ہی بہت سی ضروری اور غیر ضروری معلومات سے آشنا کر دیا ہے وہیں اس اہم موضوع پر بات کرنے سے گریز کرنا کبوتر کا بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے کے مصادق ہے۔

 مجھے یاد ہے میٹرک میں بائیولوجی کی کلاس میں جب استاد صاحب نے نظام تولید کا سبق پڑھانا شروع کیا تو تمام طلباء اشاروں کنایوں میں باتیں اور سرگوشیاں کرنے لگے۔ استاد صاحب نے بھی نہایت اہم اور پیچیدہ معلومات کو گول مول الفاظ میں بیان کیا اور سبق کو جلدی ختم کر کے جان چھڑائی۔ یہ رویہ نہایت غیر سنجیدہ اور قابل فکر ہے کہ ہم ان اہم ترین موضوعات پر صرف ایک معاشرتی شرم یا ججھک کی وجہ سے بات نہیں کر پاتے۔

بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی گھروں اور سکولوں میں جنسی تعلیم مہیا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ بعد ازاں جب ان سے سیکس جیسے موضوعات پر بات کی جائے تو وہ خود بھی سنجیدگی اور توجہ سے بات سنتے ہیں اور بڑوں کو بھی یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں لگتی۔ اس کے علاوہ بچوں کو جنسی تعلیم دینے کا فائدہ یہ ہوتا ہے بچے اپنے مسائل کے بارے میں شرم یا جھجک محسوس کرنے کی بجائے والدین یا اساتذہ سے بات کرتے ہیں۔ اگر بچے انھی مسائل کے لیے دوستوں یا دیگر ذرائع سے معلوم کرنے کی کوشش کریں تو نا صرف غلط اور نامناسب مواد تک ان کی رسائی ہوتی ہے بلکہ جنسی استحصال کے مواقع بھی بڑھ جاتے ہیں۔

 کم عمری میں بچوں کے ساتھ ہونے والی چھیڑ چھاڑ جسے وہ اکثر اوقات سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اس سے بچنے کے لیے انھیں گڈٹچ اور بیڈ ٹچ کا فرق سمجھانا نہایت ضروری ہے۔ اس طرح وہ نامناسب حرکت کے بارے میں فوراً بڑوں کو آگاہ کر سکیں گے۔ بلوغت کے بعد جسمانی ساخت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے بچے ذہنی الجھن اور کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ انھیں پہلے ہی سے ان سب عوامل کے بارے میں معلومات فراہم کر دی جائیں۔

ہمارے ہاں عموماً بچوں سے سیکس پر گفتگو کرنا اس لیے بھی معیوب سمجھا جاتے ہے کہ بچوں میں اس حوالے سے تجسس پیدا نہ ہو اور ان کے معصوم ذہن آلودہ نہ ہوں جبکہ بچوں میں قدرتی طور پر اس حوالے سے تجسّس موجود ہوتا ہے جس پر وہ قابو نہیں رکھ پاتے اور اپنے دوستوں و دیگر ذرائع سے ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح انھیں غلط قسم کی معلومات سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر کئی بچے بہت دفعہ یہ سوال کرتے ہیں کہ بچے کہاں سے آتے ہیں؟ اب اگر والدین ہی ان کے اس طرح کے معصوم سوالات کا جواب ان کی عمر کی مناسبت سے دے دیں تو انھیں کہیں اور سے جاننے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔

ایک اور غلط فہمی جس کے والدین عموماً شکار ہوتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو تو سیکس وغیرہ جیسی سرگرمیوں میں کوئی دلچسپی نہیں جبکہ بلوغت کے بعد سے ہی جسم میں ہونے والی ہارمونز کی تبدیلیاں جنسی ملاپ یا جسمانی تعلق کی طرف رحجان بڑھا دیتی ہیں اور اس سے کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جیسے غیر ارادی حمل ٹھر جانا اور جنسی بیماریوں کا شکار ہو جانا۔ لہذا بچوں کو جسمانی تعلق قائم کرنے کے محفوظ طریقوں کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا بے حد ضروری ہے۔

اردو زبان میں مرد اور عورت کے جنسی اعضاء کے لیے کوئی مناسب لفظ نہیں ملتا اور عموماً شرم گاہ یا اعضاء مخصوصہ جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کوئی شرم کی چیز ہے اور جنسی اعضاء کے بارے میں بات کرنا غلط ہے۔ یہی ہمارا جنسی خواہشات کی طرف عمومی رویہ بھی ہے یہی وجہ ہے کہ پھر بچے بھی اپنی جنسی اور جسمانی خواہشات کے بارے میں شرم محسوس کرتے ہیں اور ان کے ساتھ کوئی نا مناسب واقعہ پیش آ جائے تو خود کو ہی قصور وار اور مجرم سمجھتے ہیں۔   جنسی تعلیم سے بچوں میں رضامندی کا شعور پیدا ہوتا ہے کہ کسی کو اس کی اجازت کے بغیر چھونا یا جنسی عمل میں شریک کرنا غلط ہے اور اس کے لیے دوسرے ساتھی کی رضامندی بہت ضروری ہے ورنہ یہ زبردستی کے زمرے میں آئے گا۔

پچھلے دنوں میں یو نیسکو کی ایک ریسرچ پڑھ رہی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ جن ممالک میں بچوں کو ابتدائی سالوں میں جنسی تعلیم مہیا کر دی جاتی ہے وہاں بچے زیادہ دیر تک جنسی خواہشات پر قابو رکھ پاتے ہیں اور STIs اور انفیکشن میں کمی واقع ہوتی ہے نیز سیکس کے محفوظ اور بہتر طریقے دیکھنے میں آتے ہیں۔ لہذا جنسی تعلیم آج کل کے ترقی یافتہ دور میں اور بھی زیادہ ضروری ہوگئی ہے جہاں انٹرنیٹ پر موجود جنسی مواد سے بھرپور ویب سائٹس تیزی سے مقبول ہورہی ہیں اور پورن فلموں میں بچوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ ان فلموں میں دکھائی گئی سرگرمیوں سے نہ صرف ان کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ سیکس کے بارے میں غلط تصورات قائم ہوتے ہیں جنھیں پھر وہ اپنی حقیقی زندگی میں اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

 DW Urdu Blogerin Shagufta Kanwal
شگفتہ کنول بہاء الدین زکریا یونیورسٹی سے سوشیالوجی کی گریجویٹ ہیں۔