جنسی غلامی کی خاطر انتالیس افریقی خواتین کو یورپ لایا گیا
14 فروری 2017خبر رساں ادارے اے پی نے ہسپانوی اور مراکشی پولیس کے حوالے سے چودہ فروری بروز منگل بتایا کہ گرفتار کیے جانے والے انسانوں کے مشتبہ اسمگلر آبنائے جبرالٹر کے ذریعے لوگوں کو یورپ پہنچاتے رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ گرفتار کیا جانے والا ایک مشتبہ شخص سن دو ہزار آٹھ سے اب تک مہاجرین کی قریب چالیس کشتیوں کو یورپ لا چکا ہے۔ یوں اسے مغربی بحیرہ روم میں سرگرم انتہائی نمایاں اسمگلر قرار دیا جا رہا ہے۔
مہاجرت کا جھانسا دے کر جسم فروشی پر مجبور کر دیا
مہاجر عورتیں، بہتر مستقبل کا خواب سے جنسی غلامی تک
تين لڑکياں، تين کہانياں
ہزاروں افریقی مہاجرین ہر سال اپنی زندگیوں کو خطرات میں ڈال کر اسی سمندری راستے سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ انسانوں کے اسمگلروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں، جو غیر محفوظ کشتیوں پر انہیں اسپین پہنچاتے ہیں۔ اس دوران رونما ہونے والے حادثات میں سینکڑوں مہاجرین سمندر برد بھی ہو جاتے ہیں۔
ہسپانوی وزارت داخلہ کے ایک محتاط اندازے کے مطابق سن دو ہزار پندرہ کے دوران اسی سمندری راستے سے سولہ ہزار نو سو چھتیس مہاجرین اسپین پہنچے تھے۔ ہسپانوی پولیس نے اپریل سن دو ہزار سولہ میں نائجیریا سے تعلق رکھنے والے سات مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تھا۔
سال بھر تک جاری رہنے والی تحقیقات کے نتیجے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ اسمگلر کم از کم انتالیس خواتین کو صرف جنسی غلامی میں جھونکنے کی خاطر یورپ لائے تھے۔ ہسپانوی پولیس کے مطابق ان خواتین کو جبری طور پر جسم فروشی پر مجبور کیا گیا۔
اسی تفتیشی عمل کے دوران پولیس نے مزید مشتبہ افراد کو بھی حراست میں لیا۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ اس حوالے سے تازہ ترین گرفتاریاں کب عمل میں آئیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو اس وقت مہاجرین کے شدید ترین بحران کا سامنا ہے۔ اس بحران کے حل کی خاطر یورپی رہنما ایسے ممالک کی حکومتوں سے تعاون کر رہے ہیں، جہاں سے لوگ مہاجرت کر کے یورپ آنے کی کوشش کرتے ہیں۔