جنوبی ایشیا اور جرمن پریس
8 نومبر 2010امریکی صدر باراک اوباما کے بھارت کے دورے سے کچھ ہی دن پہلے نئی دہلی اور واشنگٹن کے مابین ایک شدید نوعیت کا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ بھارت اس بات پر امریکہ سے سخت ناراض ہے کہ اُس نے دہشت گرد ڈیوڈ ہیڈلی کے بارے میں بھارتی حکومت کے ساتھ اطلاعات کا تبادلہ نہیں کیا۔ سوئٹزرلینڈ سے شائع ہونے والا اخبار نوئے زیوریشر سائٹُنگ تحریر کرتا ہے:
’’بھارت اور امریکہ کے مابین پیدا ہونے والے تناؤ نے بھارتی میڈیا میں ہلچل مچا دی، جس کے مطابق ہیڈلی کی دو ازواج نے حکام کو مطلع کر دیا تھا کہ اُن کا شوہر ایک پاکستانی دہشت گرد گروپ کے لئے سرگرم ہے اور ایک حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس انتباہ کے باوجود ہیڈلی بغیر کسی چھان بین کے امریکہ سے پاکستان اور بھارت روانہ ہو گیا۔ واشنگٹن میں اس وقت یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کی وزارت خارجہ اور ایف بی آئی نے ہیڈلی پر لگے الزامات کا نوٹس لیا۔ تاہم انہیں اس کے کسی پاکستانی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ تعلقات کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ بھارت کے لئے یہ معاملہ محض ملک میں ہونے والے ایک خوفناک واقعے کے عمل پذیر ہونے کا نہیں ہے۔ ہیڈلی کے بیانات نئی دہلی کے ان خدشات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مسلم انتہا پسند مزید حملوں کی تیاری کر رہے ہیں اور پاکستانی حکام ان کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے۔
بھارت کی 20 ریاستوں میں ستمبر سے ایک غیر معمولی احتجاجی مہم جاری ہے۔ 31 اکتوبر کو ’معاشرتی تبدیلی کے لئے سرگرم عناصر‘ پانچ بسوں میں ایک کارواں کی شکل میں نئی دہلی پہنچے۔ اس ملک گیر مہم سے وابستہ افراد کا تعلق بھارت کے محنت کشوں کے نچلے ترین سماجی طبقے سے ہے۔ یہ اپنے ہاتھوں سے ٹائلٹس صاف کرتے یعنی دیگر انسانوں کے فُضلے کو ٹھکانے لگانے کا کام کرتے ہیں۔ اس پر جرمنی کا بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والا اخبار ’نوئس ڈوئچ لینڈ‘ لکھتا ہے:
’’بس کے ذریعے 160 اضلاع کی مسافت طے کر کے دارالحکومت نئی دہلی پہنچنے والے اس قافلے میں شامل ٹائلٹس صاف کرنے والے کارکن سماجی نا انصافی کو اتار پھینکنے اور ایک باوقار زندگی کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنا روز گار کمانے کے اس توہین آمیز ذریعے کے خلاف اپنا احتجاج حکومت تک پہنچائیں، جو دراصل بھارت میں پائے جانے والے غیر انسانی، ذات پات کے نظام کو مزید جاری رکھنے کا سبب بنا ہوا ہے۔ ٹائلٹس کی صفائی کرنے والے ان کارکنوں کو 250 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے، جو چار یورو کے برابر ہے۔ اس قلیل رقم میں ویسے بھی ان انسانوں کی گذر بسر ناممکن ہے۔ ٹائلٹس صاف کرنے والوں کو وہاں نہ تو کوئی تکنیکی آلات اور نہ ہی حفظان صحت کے لئے انتہائی اہم حفاظتی اشیاء میسر ہیں۔ اس کے سبب یہ افراد گونا گوں کہنہ امراض میں مبتلا ہیں۔ اس کے علاوہ اُن کے بچوں کو بھی اسکولوں میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مون سون کی بارشوں اور حالیہ سیلابوں کے تین ماہ بعد بھی پاکستانی حکام ملک میں پائی جانے والی بحرانی صورت حال سے لڑ رہے ہیں۔
اخبار ’فرانکفُرٹر رُنڈ شاؤ‘ کے مطابق ناگہانی آفت کے 100 دن مکمل ہونے کے بعد بھی جنوبی پاکستان میں کم از کم تین تین میٹر اونچا پانی کھڑا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے اس بدترین سیلاب کی صورتحال اور اُس کے بعد کے خوفناک مناظر پر روشنی ڈالتے ہوئے اس روزنامے نے لکھا: ’’جولائی کے آخر میں ناگہانی آفت نے پہلے سے ہی جنگ کی سی صورتحال سے دو چار ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مختلف اندازوں کے مطابق طالبان کے خلاف جنگ میں افغانستان کے مقابلے میں پاکستان میں زیادہ شہری ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ پاکستان میں شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ جھڑپیں ہوئی ہیں۔ اسی صوبے کے دارالحکومت پشاور میں 29 جولائی کو 333 ملی لٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ وہاں کی اقتصادی صورتحال کشیدہ ہے۔ حکومتی قرضہ جات پر سود کی ادائیگی کے لئے حکومت کو عالمی مالیاتی ادارے سے 2008 میں قرضے لینے پڑے تھے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ طے شدہ پروگرام کے مطابق جون 2010 میں واجب الادا دو بلین امریکی ڈالر کی قرضوں کی ایک قسط کو ابھی تک روکے ہوئے ہے۔ اس رقم کی وصولی سے قبل پاکستان کو اپنے ہاں پہلے اضافی سیلز ٹیکس نافذ کرنا ہو گا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے حکومت کو نئے قرضے لینا پڑے۔ امریکہ نے 22 اکتوبر کو پاکستان کو عسکری مقاصد کے لئے دو بلین ڈالر دینے کا وعدہ کیا اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تیزی لانے کا عہد کیا۔ یعنی سیلابی تباہ کاریوں کے 100 دن پورے ہونے پر بھی جنگ جاری ہے۔
تحریر: آنا لیہمان / کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک